• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اپنے حصے کا عوض لے کر دستبردار ہونا

استفتاء

میرے والد صاحب نے شریف پارک ملتان روڈ پر ایک بارہ مرلے کا پلاٹ خریدا۔ جس پر دو کمرےکچا صحن ایک باتھ روم اور کچن بنا ہوا تھا۔ (سن اور مالیت کہ کتنے کا لیا تھا مجھے معلوم نہیں ہے)۔

1985ء میں والد صاحب نے اس جگہ پر گھر بنوانا شروع کیا۔ پھر اس پر پانچ کمرے، تین باتھ روم، سٹور اور کچن بنوایا گیا۔ گھر تیار ہو جانے پر اس میں ہم نے رہائش اختیار کی۔ 1991ء میں ابو جان کا انتقال ہوگیا۔ 2000ء میں ہماری والدہ صاحبہ نے اوپر کی منزل پر گھر کی تعمیر شروع کروانی۔ اور اوپر کا بھی بہت اچھا گھر تعمیر ہوا۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ہماری امی نے اپنی زندگی مین ہی ہم سب بھائیوں کے حصےدے دیے۔ ہم دونوں بہنوں کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے دیے اور بھائیوں کو دو، دو لاکھ روپے دیے گئے۔ دو بھائی لاہور سے باہر ہوتے ہیں۔ رقم انہی کو  دی گئی۔ جبکہ تین بھائی اس گھر میں مقیم ہیں۔ سب سے چھوٹے بھائی نے بھی اپنے لیے اوپر الگ پورشن بنا لیا ہے۔ اب تین پورشن تینوں نے لے لیے ہیں۔ مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اب موجودہ اس گھر کی قیمت 80 -90 لاکھ ہے۔ اور ہم دونوں بہنوں کو ایک ایک لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ آیا یہ رقم صحیح ادا کی گئی ہے؟ کیونکہ ہمیں یہ رقم اس وقت کے حساب سے دی گئی ہے جب والد صاحب نے یہ پلاٹ خریدا تھا۔ کیا یہ حصے شرعی طریقے سے دیے گئے ہیں؟ اور اگر میں تو شرعی طریقہ کیا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ آپ کے والد نے خریدے ہوئے پلاٹ میں بہت سے مزید تعمیر کرالی تھی اس لیے پلاٹ اور تعمیر شدہ مکان کی اس وقت کی قیمت مالیت کے لحاظ سے آپ کو رقم ملنی چاہیے تھی صرف خریدے ہوئے پلاٹ کی قیمت اور وہ بھی خرید کے وقت کی قیمت میں حصہ دینا درست نہیں تھا۔ اور اگر آپ لوگوں نے اس وقت اپنے حصہ کے عوض ایک لاکھ روپے بخوشی قبول کر لیے تھے تو اب آپ لوگ زائد کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved