• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنے اوپر شام کو لازم کرلو” والی حدیث کا مطلب

استفتاء

درج ذیل حدیث کی روشنی میں کیا اقدام کیے جائیں ؟کیا یہ حدیث مستند ہے ؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عنقریب ایسا وقت  آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جائو گے ایک ٹکڑی شام میں ،ایک یمن میں اور عراق میں ابن حوالہ نے کہا :اللہ کے رسول !مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں ،  آپ ﷺ نے فرما یا :اپنے اوپر شام کو لازم کرلو ،کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے ،اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالاب سے پانی پلانا ،کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنن ابو داود :2483

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ حدیث مستند ہے البتہ اس حدیث میں جس زمانے کی خبر اور اس سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں اس سے مراد حضرت اما م مہدی علیہ الرضوان کا زمانہ ہے ۔

بذل المجہودفی حل ابی داوؤ11/380 مین ہے:

(فقال علیکم بالشام )ای الشام (خیرةالله)ای مختارة الله (من ارضه )ای من بلاده والمعنی اختارها الله من جمیع الارض الی الشام للاقامة فی  آخرالزمان (یجبتی الیها)

ویشکل علی الحدیث ماورد فی فضائل المدینة لا سیما من قوله ﷺالمدینة…..والاوجه عندی فی الجمع بل ان فضیلة المدینة عامة فی کل الاوقات وفضل الشام تختص بزمان المهدی ﷺ فان الشام فسطاط المسلمین

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved