• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی ممانی کو کپڑوں کے اوپر چھونے کی صورت میں اس کی بیٹی سے شادی کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم

سائل کا نام محمد زید ہے، زید کی عمر مسئلہ کرتے وقت 24 سال اور نو مہینے ہے، زید جب 15 یا 16 سال کا تھا تو کافی گناہوں  میں  مبتلا تھا، جن گناہوں  کا تعلق شہوت سے تھا۔

اس وقت زید کا اپنے ماموں  کے گھر آنا جانا تھا، زید پر شہوت کا غلبہ تھا کیونکہ یا تو بالغ ہونے والا تھا یا ہو چکا تھا مگر اس بارے میں  پکے طور پر کچھ کہا نہیں  جا سکتا کہ اس وقت زید بالغ ہو چکا تھا یا نہیں ؟ زید اپنی شہوت پوری کرنے کے لیے اپنے ماموں  کی بیٹی جو اس وقت چھ یا سات سال کی تھی اس کو جب موقع ملتا شہوت کے ارادے سے جسم کے مختلف حصوں  پہ ہاتھ لگا لیا کرتا تھا۔ اب آٹھ نو سال گذر جانے کے بعد بھی زید کو چار، پانچ دفعہ اپنے ماموں  کی بیٹی کو شہوت کے ارادے سے ہاتھ لگانا یاد ہے، اور زید نے اس سے بھی کئی زیادہ دفعہ اپنے ماموں  کی بیٹی کو شہوت کے ارادے سے ہاتھ لگایا، مگر ٹھیک ٹھیک یاد چار، پانچ دفعہ ہی ہے۔

ان دنوں  ماموں  نے ایک کمرے میں  نیا اے سی لگوایا تھا، گرمی کی شدت کی وجہ سے رات کو تمام بچے، بوڑھے اور جوان سب کے سب ایک ہی کمرے میں  سو جاتے تھے۔ ایک رات زید اپنے ماموں  کے گھر رات کو رکا تو اس کو اپنی ممانی کے ساتھ لیٹنے کا اتفاق ہوا، ارادہ نہ ہونے کے باوجود رات کے کسی حصے میں  زید کی آنکھ کھلی تو زید پر شہوت سوار ہو گئی، اور زید نے اپنی ممانی کی چھاتیوں  پر کچھ دیر ہاتھ لگایا، ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے اور ممانی کے اٹھ جانے کے ڈر کی وجہ سے زید کچھ دیر بعد وہاں  سے اٹھ کے کہیں  اور جا کے سو گیا، اس دوران ممانی کو نیند کی وجہ سے کچھ خبر نہ ہوئی۔

اس عمر میں  زید کا تعلق ایک دینی شخصیت سے جڑ گیا، جس نے زید کو دین کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش میں  مشغول کر دیا، اس چیز کازید پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کر لی، یہ سارا قصہ چار سے پانچ ماہ کے عرصے کے اندر اندر کا ہے۔ ایک عالم جو زید کو اس وقت سے جانتے ہیں  جب وہ پندرہ یا سولہ سال کا تھا، ان کا کہنا ہے کہ اس عمر میں  زید دماغی طور پر اتنا چھوٹا اور جسمانی طور پر اتنا کمزور تھا کہ اس کی شہوت کا کوئی اعتبار نہیں  کیا جا سکتا تھا۔ ان عالم کا کہنا ہے کہ اس عمر میں  زید کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ شہوت کی صورت کا کسی بھی طریقے سے خوفناک، خطرناک ہونا تقریباً ناممکن ہے۔

زید کا اپنا یہ کہنا ہے کہ اس پہ شہوت کا اثر تو تھا لیکن اتنا نہیں  کہ ’’زنا بالرضا‘‘ یا ’’جبری زنا‘‘ کر بیٹھتا بلکہ زید کا یہاں  تک کہنا ہے کہ اسے زنا کا طریقہ تک معلوم نہیں  تھا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کی شادی اپنی اسی ماموں  کی بیٹی سے ہو گئی ہے جسے وہ آٹھ یا نو سال پہلے شہوت کے ارادے سے چھو لیا کرتا تھا۔ زید یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا اس کی بیوی اس کے لیے حلال ہے؟

یہ مسئلہ زید کے دماغ میں  اس وقت آیا جب زید نے ایک عالم سے یہ مسئلہ سنا کہ ’’اگر کسی عورت کو شہوت کے ارادے سے چھو لیا جائے تو پھر اس سے تو نکاح ہو سکتا ہے مگر اس کی ماں  یا اس کی اولاد سے نہیں ۔‘‘

پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں  گناہوں  سے توبہ کرنے کے بعد زید نے کبھی اپنے ماموں  کی بیٹی کو یا اپنی ممانی کو نہیں  چھوا، یہاں  تک کہ زید 24 سال کا ہو گیا اور ایک دن اپنے ماموں  کی بیٹی کو دیکھا جو تقریباً مسئلہ لکھتے وقت پندرہ سال کی ہے، تو زید کو اس سے شادی کا خیال آیا تو اس نے اپنے والدین سے کہہ کے اپنے ماموں  کے گھر رشتہ بھیجا اور دونوں  کی شادی ہو گئی۔

اگر فتویٰ دینے کے لیے کچھ اور معلومات درکار ہوں  تو زید دینے کے لیے حاضر ہے۔مہربانی فرما کر اس مسئلے پر ایک فتویٰ دے دیجیے اور آسانی کے پہلو کو ترجیح دیجیے۔

تنقیح:

ممانی کو چھونا کپڑے کے اوپر سے تھا۔ جب چھوا تھا تو ان کے جسم کی حرارت محسوس نہیں  ہوئی، چھونے کے دوران عضو خاص میں  انتشار تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  ممانی کو چھونے کے وقت چونکہ کپڑا حائل تھا جس کی وجہ سے ممانی کے جسم کی حرارت زید کو محسوس نہیں  ہو رہی تھی اس لیے اس چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں  ہوئی۔ لہذا زید کا نکاح اپنے ماموں  کی بیٹی سے درست ہے۔

فی الدر: (114/4)

بحائل لا یمنع الحرارة ۔۔۔۔ فلو کان مانعاً لا تثبت الحرمة کذا فی اکثر الکتب۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved