• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عقائد کا گھریلو زندگی پر اثر

استفتاء

میں ایک عرصہ سے اپنی اہلیہ کے حوالے سے کچھ پریشان ہوں اور پریشانی کی نوعیت صرف گھریلو نہیں بلکہ کچھ ایمانیات و عقائد سے متعلق بھی مسائل ہیں۔

حسبِ ذیل چند امور مختصراً ذکر کیے ہیں جن کی بنا پر دینی و شرعی رہنمائی مقصود ہے۔

دین و ایمان سے متعلق مسائل:

  1. جماعت میں وقت لگا کر بھی جہاں تک کلمے کی بات ہے وہ اس حد تک بڑی مطمئن ہوتی تھی۔ کہ ایک اللہ ہے اور وہی سب کچھ کرتا ہے اور کوئی اس کے سوا معبود نہیں، لیکن رسالت اور الہامی کتب کے بارے میں وہ شک ہی میں رہتی تھی کہ یہ سچی کتابیں کیسے ہیں؟ یہ اس کو سمجھ نہیں آتی تھی۔
  2. کینڈا منتقل ہونے کے بعد اس کے ذہن میں 2شبہے پیدا ہوئے، ایک یہ کہ میرے شوہر ٹھیک ہے اتنے دیندار ہیں لیکن ان کے مالی حالات کیوں نہیں ٹھیک ہوتے؟ دوسرا یہ کہ ایمان، عقیدہ، نماز وغیرہ یہ ضروری کیوں ہے؟ لوگ تو ویسے بھی بڑے خوش زندگی گزار رہے ہیں۔
  3. مذکورہ بالا شبہات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے پہلے پردہ کرنا چھوڑا، پھر نماز چھوڑی پھر غسلِ جنابت ترک کیا۔ اس نے بچوں پر بھی سختی کرنا شروع کی کہ میں ان کو دیندار نا بناؤں۔ دین والے راستے پر نا چلاؤں۔
  4. پھر اس کو انٹرنیٹ پر ایک بندہ ملا جو بڑا زبردست قسم کا ملحد و دہریہ تھا اس سے اس نے اپنے خیالات کا تبادلہ کیا اور یوٹیوب پر موجود اس آدمی کے تقریباً سب لیکچر سنے اور اس کا ذہن تقریباً واش ہوگیا۔ اس نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں کہ جو مجھے بھول بھی گئی ہیں، لیکن ان سے پتہ چلتا تھا کہ یہ بس اللہ تعالیٰ کو مانتی ہیں باقی سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔
  5. ہاں سلام ضرور کرتی تھی۔ اب بھی کرتی ہے جب چیٹنگ ہو واٹس ایپ پر یا فون کال پر۔ باقی جب کوئی بات آجائے دین سے متعلق اسلام سے متعلق تو وہ اس کو لینے کے لیے تیار نا تھی۔ بلکہ سننے کو بھی تیار نہیں۔
  6. مجھے اس بات کا بھی سخت اندیشہ ہے کہ مزید اس خاتون کے ساتھ تعلق رہا تو کہیں میں بھی اپنے ایمان سے ہاتھ نا دھو بیٹھوں، جیسا کہ امورِ مذکورہ بالا میں سے نمبر2اور حسبِ ذیل امور میں سے بھی شق نمبر 2سے واضح ہے۔

ازدواجی زندگی کے مسائل:

  1. یہ ذہنی مسائل و معاملات بگڑتے چلے گئے تو اب اس نے گویا علیحدگی کی طرف جانا شروع کر دیا۔ بات بات پر کہ تم گھر سے چلے جاؤ، تم گھر سے چلے جاؤ، مجھے ضرورت نہیں ہے۔
  2. اس دوران ایک کام یہ ہوا کہ میری بیگم مالی اعتبار سے مجھ سے آگے بڑھ گئی میں مالی طور پر ترقی نہیں کر سکا۔ یہ ترقی کرگئی اپنی مخصوص فیلڈ ہربل وغیرہ میں، اب اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے اونچے لوگوں سے ہوگیا اور اچھی جگہوں پر ہوگیا، تو میں گویا اس کے سامنے ذلیل ہوگیا۔
  3. ایک مرتب کسی بات پر کوئی جھگڑا ہوا تھا، پولیس تھانے تک بات پہنچنے والی تھی اس لیے میں سامان اُٹھا کر چلّے پر چلا گیا۔ جب میں چلّے سے واپس آیا تو محسوس ہوا کہ اس کا دل کچھ نرم ہو چکا ہے۔ لیکن وہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے کچھ خاص تقاضے تھے جس کی وجہ سے اس کو میرے ساتھ رہنا تھا۔
  4. پھر اس نے کچھ تقاضے میرے سامنے رکھے کہ اگر یہ پورا کر دو تو پھر ساتھ چل سکتے ہیں لیکن وہ بھی میرے بس کے نہیں تھے۔ جن تقاضوں میں سود اور سودی قرضے جیسے معاملات بھی تھے۔ کچھ ایسا پیشہ مجھ سے اختیار کروانا چاہتی تھی کہ جو میرے لیے مناسب نہیں تھا۔ اور میں کر بھی نہیں سکتا۔ انہی باتوں کی وجہ سے پھر لڑائی ہوئی اور آخر میں مجھے پاکستان آنا پڑا۔

امورِ مشورہ فتویٰ طلب پہلو:

  1. ایمانیات سے متعلق مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں میرا اس خاتون سے نکاح باقی ہے؟
  2. یہ پوچھنا ہے کہ اس عورت کو رکھنا مناسب ہے یا چھوڑنا مناسب ہے؟
  3. میرے بچے جو اس کے پاس ہیں کیا میں بچوں کی خاطر اس خاتون کو برداشت کرلوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ خاتون سے آپ کا نکاح باقی ہے
  2. یہ ہمارے دائرہ کار کی بات نہیں، یہ آپ کی اپنی صوابدید پر ہے یا آپ ایسے لوگوں سے مشورہ کریں جو آپ کے اور آپ کی بیوی بچوں کے ذاتی حالات سے واقف ہوں اور دین دنیا کی سمجھ بوجھ رکھتے ہو۔
  3. اس کا جواب بھی نمبر2والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved