- فتوی نمبر: 2-332
- تاریخ: 15 نومبر 2008
استفتاء
1۔کیا عقیقہ بکرے بکری کے علاوہ بڑے جانوریعنی گائے اونٹ پر بھی ہوسکتاہے ۔ اور اگر ہوسکتاہے تو یہ قیاس ہے یا کسی حدیث سے ثابت ہے یا کسی صحابی کی زندگی سے ثابت ہے۔
2۔اگر ہوسکتاہے تو بڑے جانور میں سا ت حصے شمار کیئے جائیں گے یا ایک حصہ تصور کیا جائے گا؟
3۔عقیقے کی کوئی عمر طے ہے یا کسی بھی عمر میں کیا جاسکتاہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔بڑے جانور کو بھی عقیقہ میں ذبح کیا جاسکتاہے ۔ اور یہ قربانی کے بڑے جانور پر قیاس کیا گیا ہے۔ نیز کچھ احادیث سے بڑےجانور کے عقیقہ کا ثبوت ملتاہے اگرچہ یہ احادیث انتہائی کمزور ہیں ۔لیکن ان احادیث سے اس قیاس کی تائید ضرور ہوتی ہے۔
وإذاعرفت ذلك فالحجة للجمهور هوالقياس علی الأضحية لاذلك الحديث الساقط ولا يعارضه حديث عائشة لأنه علی كون الذبح الإبل والبقر خلاف السنة ولا ينفي الجواز، والقياس إنما يدل علی الجواز لا علی السنة(وقال بعد اسطر) قلت وينبغي أن يكون الأفضل فی لغلام الكبش لما ورد فی الحديث فی عقيقة الحسن والحسين وفي قوله من ولدله غلام فليعق عنه الإبل أوالبقر أو الغنم دليل علی جواز العقيقة ببقرة كاملة أوببدنة كذلك ، عن أم كرز وأبي كرز قال نذرت إمرأة من اٰل عبدالرحمٰن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبدالرحمٰن بن أبي بكر نحرنا جزوراً ،فقال عائشة لا بل السنة افضل عن غلام شاتان مكا فئتان وعن الجارية شاة هذاحديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه( مستدرك 4/238) واقره الذي عليه فی التلخيص . (اعلاء السنن :ص 115ج17)
2۔سات تک حصے رکھ سکتے ہیں۔
شمل مالو كانت القربة واجبة علی الكل أوالبعض اتفقت جهاتها أولا كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة و قران خلافاً لزفر لأن المقصود من الكل القربة وكذا لوأراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له.(شامی: ص540ج9)
3۔مستحب یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کردے ورنہ جتنی جلدی ہوسکے کرے۔ ویسے پوری عمر میں جب کرےجائز ہے۔
يستحب لمن ولدله أن يسميه يوم أسبويه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأيمة الثلاثة بزنة شعره فضة أ و ذهباً ثم يعق عند الحلق عقيقة.(شامی:ص 554ج9) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved