- فتوی نمبر: 33-190
- تاریخ: 02 جون 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
حدیث میں ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اچھے اعمال پر آپ خوش ہوتے ہیں اور برے اعمال کرنے والے کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔
1۔اس حدیث کا حوالہ کیا ہے؟ نیز یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے یا ضعیف؟
2۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ گنہگار گناہ کر رہا ہے اور خود استغفار نہیں کر رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے استغفار کر رہے ہیں؟
3۔قرآن پاک کی ایک آیت ہے جس کا مفہوم ہے کہ اگر لوگوں سے کوئی گناہ ہو جائے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیں تو اللہ تعالی کو یہ لوگ بخشنے والا اور مہربان پائیں گے۔ کیا مذکورہ حدیث اس آیت مبارکہ کے خلاف نہیں ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ حدیث مسند بزار( 5/ 308 ، رقم الحدیث: 1925) میں ہے اور مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے نہ کہ ضعیف۔ البتہ مسند بزار کی روایت میں پیر اور جمعرات کے الفاظ نہیں ہیں اور جن احادیث میں یہ الفاظ ہیں وہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
حدثنا يوسف بن موسى، قال: نا عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد، عن سفيان، عن عبد الله بن السائب، عن زاذان، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم: قال حياتي خير لكم تحدثون ونحدث لكم، ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم ، فما رأيت من خير حمدت الله عليه، وما رأيت من شر استغفرت الله لكم.
طرح التثريب فی شرح التقريب(3/297) میں ہے:
روى ابوبكر البزار فى مسنده بإسناد جيد عن ابن مسعود ……..
مجمع الزوائد (1/26) میں ہے :
رواه البزار ورجاله رجال الصحيح.
عروس الاجزاء، لابی الفرج مسعود ابن الحسن الثقفی الاصبہانی، ت:۵۶۲ھ (ص:78) میں ہے :
وأخبرنا الرئيس مسعود أنا أبو الحسين محمد بن علي بن عبيد الله بن عبد الصمد بن المهتدي بالله في كتابه أنا أبو الحسن علي بن عمر بن محمد الحربي السكري قراءة في منزله بدرب الحاجب سنة أربع وثمانين وثلاثمائة ثنا أبو سعيد الحسن بن علي بن زكريا بن صالح العدوي البصري ثنا خراش عن أنس ……………… وبه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حياتي خير لكم وموتي خير لكم أما حياتي فأحدث لكم وأما موتي فتعرض علي أعمالكم عشية الاثنين والخميس فما كان من عمل صالح حمدت الله عليه وما كان من عمل سوء استغفرت الله لكم
عشاريات السيوطی(ص:11) میں ہے :
أخبرنا محمد بن مقبل إجازة، عن الصلاح بن أبي عمر، عن الفخر بن البخاري، عن المؤيد بن عبد الرحيم الظاهري، عن طاهر الشحامي، سماعا عليه في خماسياته، قال الشيخ أبو سعيد الحسن بن علي بن زكريا بن صالح بن زفر العدوي ببغداد سنة 319، قال: مررت بالبصرة فإذا شيخ كبير قد سقط حاجباه على عينيه , فقلت: من هذا؟ قالوا: هذا خراش بن عبد الله، مولى أنس بن مالك، قلت: كم له من السنين؟ قالوا: ثلاثون ومائة سنة، وقال بعضهم: أربعون ومائة سنة، فزاحمت الناس، ودخلت عليه، وبين يديه جماعة يكتبون، والباقون نظار، فأخذت قلما من يد رجل، وكتبت عنه هذه الأحاديث …….. وبه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حياتي خير لكم، ومماتي خير لكم، فأما حياتي فأحدثكم وأحذركم وأخولكم، وأما موتي فيعرض علي أعمالكم عشية الاثنين والخميس، فما كان من عمل صالح حمدت الله عليه، وما كان من عمل سيئ استغفرت الله لكم منه»
میزان الاعتدال (1/651) میں ہے :
خراش بن عبد الله.
عن أنس بن مالك.ساقط عدم، ما أتى به غير أبي سعيد العدوي الكذاب، ذكر أنه لقيه سنة بضع وعشرين ومائتين [بلى] وروى عنه أيضا حفيده خراش.قال ابن حبان: لا يحل كتب حديثه إلا للاعتبار.وقال ابن عدي: زعم أنه مولى أنس
الضعفاء والمتركون للجوزی(1/253) میں ہے :
خراش بن عبد الله
يروي عن أنس وكان يزعم أنه خدم أنسا.قال ابن عدي مجهول وقال ابن حبان لا يحل الاحتجاج به ولا يكتب حديثه إلا للاعتبار
2۔اگر گنہگار خود استغفار نہ کرے اور اس کے لیے اللہ تعالی کے رسول یا دیگر ایمان والے استغفار کریں تو اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ اور دیگر ایمان والوں کے لیے استغفار کا حکم ہے۔
سورۃ المحمد (آیت نمبر 19) میں ہے:
واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات
ترجمہ: اور اپنے قصور پر بھی بخشش کی دعا مانگتے رہیں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی بخشش کی بھی۔
اسی طرح نماز کے آخر میں عموماً جو “رب اجعلني …. الخ” دعا پڑھی جاتی ہے اس میں بھی ہر نمازی تمام مومنین (خواہ وہ گنہگار ہوں یا نہ ہوں, خود استغفار کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں ان سب) کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے۔
اسی طرح خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی شرک کو تو معاف نہیں فرمائیں گے باقی شرک کے علاوہ جس کے لیے چاہیں گے اس کے گناہوں کو معاف کر دیں گے (خواہ اس نے خود استغفار کیا ہو یا نہ کیا ہو)۔
سورۃ النساء ( آیت نمبر 48) میں ہے:
ان الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء
ترجمہ: بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے
اسی طرح مسلمان نماز جنازہ میں فوت ہونے والے کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں (خواہ اس نے خود توبہ کی ہو یا نہ کی ہو)
سنن ابن ماجہ (480/1 ،رقم الحدیث 1497) میں ہے:
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صلى على جنازة يقول: “اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وانثانا….”
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازے کی نماز پڑھتے تو یہ دعا مانگا کرتے” اے اللہ مغفرت فرما ہمارے زندوں اور مردوں کی اور اور ہم میں سے حاضر اور غائب کی اور ہمارے بڑے اور چھوٹوں کی اور ہمارے مردوں اور عورتوں کی”۔
الغرض قرآن و حدیث کی رو سے یہ بات قابل اشکال یا ناقابل فہم نہیں کہ اگر گنہگار خود استغفار نہ کرے تو کوئی دوسرا بھی اس کے لیے استغفار نہ کرے۔ بالخصوص وہ ذات جس کی اپنی امت کے ساتھ محبت معروف و مشہور ہے اور جسے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا گیا اور جس نے خود فرمایا کہ کل قیامت کے دن میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہوگی۔
سنن ابی داؤد ( 237/4، رقم الحدیث 4739) میں ہے:
عن انس بن مالك رضي الله تعالى عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :”شفاعتي لاهل الكبائر من امتي”
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی۔
3۔مذکورہ حدیث اس آیت مبارکہ کے خلاف نہیں جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) یہ آیت اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے منافقین سے متعلق ہے اور منافقین کے گناہ خالی رسول کے استغفار کرنے سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ خود بھی استغفار نہ کریں ۔
(۲) اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ جب تک کوئی گناہگار خود استغفار نہ کرے اس وقت تک کوئی دوسرا بھی اس کے لیے استغفار نہ کرے ۔
(۳) نمبر 2 کے تحت متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ گنہگاروں کے لیے دوسروں کا استغفار کرنا بھی فائدہ مند ہے، چاہے وہ خود استغفار نہ کریں
تفسیر طبری جامع البیان(7/199) میں ہے:
{ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما} يعني بذلك جل ثناؤه: ولو أن هؤلاء المنافقين الذين وصف صفتهم في هاتين الآيتين.
تفسیر نسفی(1/370) میں ہے:
{ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم} بالتحاكم إلى الطاغوت {جاؤوك} تائبين من النفاق معتذرين عما ارتكبوا من الشقاق.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved