• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’اطلبوا الخير من حسان الوجوه‘‘ حدیث اور خوش رو چہرے والوں سے حاجتیں مانگنے سے متعلق

استفتاء

1۔ کیا فرماتے ہیں علماء کرام ان باتوں کے متعلق ، میرے دوست نے مجھے یہ احادیث اور حوالہ جات دیے ہیں۔ اور کہا ہے کہ جو اولیاء سے عداوت رکھتے ہیں وہ ان باتوں کو نہیں مانتے۔

1۔ طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے، اور  اوسط میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، اور بزار نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے، ہاں ہاں ابن عساکر نے ام المؤمنین سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرما:

اطلبوا الخير و الحوائج من حسان الوجوه.

ترجمہ: بھلائی اور اپنی حاجتیں خوش رو (خوب صورت چہرے والوں) سے مانگو۔

حضرات اولیاء کرام ہیں خوش رو چہرے والے۔ کیونکہ نور ایمان اور کثرت عبادت و ریاضت سے ان کے چہرے چمکتے ہیں۔

2۔ طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:

’’اللہ تعالیٰ  کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق کی حاجت روائی کے لیے خاص فرما لیا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لاتے ہیں۔‘‘

ایک نمبر حدیث کا حوالہ تفسیر  ’’البحر المدید: 8/ 48‘‘ سورہ ’’المنافقون‘‘ آیت: 8۔  ادب ابن ابی شیبہ، باب ما جاء فی طلب الحوائج عند  حسان الوجوہ 1/ 51، حدیث نمبر: 484950۔ مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما ذکر فی طلب الحوائج عند حسان الوجوہ، حدیث نمبر: 26276، 26277، 26278، 26801، 26802، 26803۔ مسند اسحاق راہویہ: 3/ 947، فضائل الصحابہ۔ مسند احمد بن حنبل: 2/ 726، حدیث نمبر: 1246۔ مسند احمد: 14/ 537، حدیث نمبر: 8985۔ تخریج الاحادیث المرفوعة للبخاری: 1/ 456، حدیث نمبر: 134۔ مسند ابی یعلیٰ: 8/ 199، حدیث نمبر: 4759۔ اعتلاء القلوب: 1/ 166، 163۔

میرا سوال یہ ہے کہ کون سی بھلائی اور حاجتیں خوش رو چہرے والوں سے مانگنی ہیں؟ اور کون سی بھلائی اور حاجتیں خوش رو چہرے والوں سے نہیں مانگنی چاہیے؟ قرآن و احادیث سے حوالہ دے کر جواب عنایت فرمائیں۔ تاکہ میں اپنے اور اپنے دوست کے خیالات اور عقیدہ کو درست رکھ سکوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’اطلبوا الخير من حسان الوجوه‘‘ والی حدیث کو ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’موضوعات‘‘ میں موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔  جبکہ عام  طور سے دیگر محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔

و قد ذكر الحديث ابن الجوزي في ’’الموضوعات‘‘ (1053- 1068) من حديث ابن عباس و ابن عمر … و ظاهر كلام السخاوي في ’’المقاصد‘‘ الحكم عليه بالضعف لا الوضع، و نقل مثل ذلك عن شيخه ابن حجر. أما السيوطي فقد قال في اللألي هذا الحديث في معتقدي حسن صحيح. (تخريج المصنف لابن أبي شيبة لمحمد عوامة، كتاب الأدب، باب: 141، ص: 400)

بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے اولیاء اللہ سے اور وہ بھی بالخصوص جبکہ وہ وفات پا چکے ہوں، اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگنا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی ضرورت کی چیز کسی سے مانگنا پڑے تو ایسے آدمی سے مانگو جو اچھے چہرے والا ہو یعنی تمہارے مانگنے سے  اس کا چہرہ بگڑ نہ جائے۔ چنانچہ اس حدیث کی بعض روایات میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:

فإن قضی حاجتك قضاها بوجه طلق و إن ردك، ردك بوجه طلق.

ترجمہ: اگر تمہاری حاجت پوری کریں گے تو خندہ پیشانی سے۔ اور اگر جواب دیں گے (تمہاری حاجت پوری نہیں کی) تو وہ بھی خندہ پیشانی سے۔

فتویٰ نمبر: 9/ 155                                                                   کتبہ: محمد رفیق

تاریخ: 20 ذیقعدہ 1437ھ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved