• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورت کا بچہ اس کے نیچے دب کر مر جائے تو اس کا کفارہ

  • فتوی نمبر: 20-338
  • تاریخ: 26 مئی 2024

استفتاء

مفتی صاحب میرا ایک ساتھی پوچھتا ہے کہ ایک عورت کا بچہ رات کو اس کے نیچے آ گیا اور مر گیا تو اب اس کا کفارہ کتنے روزے ہوں گے؟ اگر ان روزوں کے درمیان حیض آ جائے یا رمضان المبارک آ جائے توکیا پھر لوٹانا لازمی ہے یا تسلسل لازم  نہیں ہے؟ وضاحت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت قتل قائم مقام خطا کی ہے جس میں  میں دیت اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔ کفارہ ساٹھ روزے ہیں جن میں تسلسل لازم ہے تا ہم حیض سے اس تسلسل میں فرق نہ آئے گا۔ حیض سے پاکی کے بعد روزے مکمل کر لے۔ لیکن رمضان المبارک  درمیان میں آ جانے سے تسلسل ٹوٹ جائے گا  اور روزے از سر نو رکھنے پڑیں گے۔

رد لمحتار علی الدر المحتار، کتاب الجنایات (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 163) پر ہے:

“( و ) الرابع ( ما جرى مجراه ) مجرى الخطأ ( كنائم انقلب على رجل فقتله ) ؛ لأنه معذور كالمخطئ ( وموجبه ) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه ( الكفارة والدية على العاقلة ) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة۔

قال ابن عابدین: ( قوله والرابع ما جرى مجراه إلخ ) فحكمه حكم الخطأ في الشرع ، لكنه دون الخطأ حقيقة فإن النائم ليس من أهل القصد أصلا ، وإنما وجبت الكفارة لترك التحرز عن نومه في موضع يتوهم أن يصير قاتلا ، والكفارة في قتل الخطأ إنما تجب لترك التحرز أيضا ، وحرمان الميراث لمباشرة القتل وتوهم أن يكون متناعسا لم يكن نائما قصدا منه إلى استعجال الإرث”

رد لمحتار علی الدر المحتار ، کتاب الدیات (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 10 صفحہ نمبر237  )پر ہے:

“(وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما)”

رد لمحتار علی الدر المحتار ، كتاب الطهارة، باب الحيض (طبع: مکتبہ رشیدیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 532) پر ہے:

“ولا يقطع التتابع في صوم كفارة القتل والفطر۔۔۔”

تفسیر مظہری (طبع: دار احیاء التراث  ، بیروت، جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 410)پر ہے:

“فَمَنْ لَمْ يَجِدْ رقبة فَصِيامُ يعنى فالواجب على القاتل فى جميع الصّور المذكورة صيام شَهْرَيْنِ مُتَتابِعَيْنِ فمن أفطر يوما فى خلال الشهرين بلا عذر أو نسى النية أو نوى صوما آخر وجب عليه الاستيناف اجماعا لاشتراط التتابع وان أفطرت المرأة بحيض فلا استيناف عليها اجماعا”

امداد المفتیین(طبع:دار الاشاعت ،کراچی) صفحہ نمبر 749پر ہے:

“(سوال ۸۱۱) ایک عورت اپنے چھوٹے بچہ کو ہمراہ لے کر علیحدہ اپنے خاوند سے سوئی، نیند کی غشی میں بچہ ماں کے پہلو کے نیچے آ کر مر گیا اب اس ماں کے لئے شرعا کیا سزا ہے یعنی دیت ہو گی یا روزے یا کچھ اور۔؟

(الجواب) اس عورت پر کفارہ واجب ہے اور اس کے عاقلہ پر دیت واجب ہےنیز یہ عورت گناہ گار بھی ہوئی توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔”

مسائل بہشتی زیور (طبع: مجلس نشریات اسلام) جلد 2، صفحہ نمبر395 پر ہے:

“قسم رابع: قتل مثل خطا مثلاً سویا ہوا شخص کسی دوسرے پر پلٹ گیا جس سے دوسرا شخص مرگیا۔

حکم ۱: قاتل کے ذمے کفارہ ہوتا ہے اور اس پر اور اس کی برادری یا انجمن کے ذمے دیت آتی ہے۔۔۔۔۔ قتل کی جن قسموں میں کفارے کا ذکر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ قاتل یا تو کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو یا غلام نہ ملتا ہو تو دو مہینے متواتر روزے رکھے”

احسن الفتاوی (طبع: ایچ ایم سعید کمپنی) جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 451 پر ہے:

“سوال : اگر کسی عورت نے روزہ رکھ کر توڑ دیا اور اب سے کفارہ کے روزے رکھنے ہیں،  کفارہ کے روزے رکھنے شروع کیے تو چند روز بعد اس کے ماہواری کے دن آ گئے، اب وہ روزہ نہیں رکھ سکتی، اور کفارہ کے روزوں میں ناغہ نہیں ہوتا ایسی عورت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آیا وہ ماہواری کے بعد دوبارہ کفارہ شروع کرے؟

الجواب: ماہواری کی وجہ سے کفارہ کے روزوں میں فصل مضر نہیں، ماہواری ختم ہوتے ہی فورا روزے شروع کر دے اسی طرح ساٹھ روزے پے در پے پورے کرے، اگر ماہواری ختم ہونے کے بعد ایک دن کا بھی ناغہ کیا تو نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھنے پڑے گیں”

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved