- فتوی نمبر: 30-87
- تاریخ: 08 فروری 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘ (سنن أبي داؤد، ۳/۲۱۸، أخرجه الترمذي، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال: حدیث حسن)
ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
اس حدیث کے پیشِ نظر عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہلِ علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے جبکہ درج ذیل حدیث سے جواز معلوم ہوتا ہے۔
و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَى ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُالله رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَى قَالَ قَالَتْ لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْءَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ الله بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ الله عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ الله نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ الله قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ الله الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ
عبداللہ بن وہب نے ہمیں حدیث سنائی ، کہا : ابن جریج نے عبداللہ بن کثیر بن مطلب سے روایت کی، انھوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب ( المطلبی ) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، وہ حدیث بیان کر رہی تھیں ، انھوں نے کہا : کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ اور اپنی طرف سے حدیث نہ سناؤں ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ۔۔۔ اور حجاج بن محمد نے ہمیں حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی ، کہا : قریش کے ایک فرد عبداللہ نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب سے روایت کی کہ ایک دن انھوں نے کہا : کیا میں تمھیں اپنی اور اپنی ماں کی طرف سے حدیث نہ سناؤں ؟ کہا : ہم نے سمجھا کہ ان کی مراد اپنی اس ماں سے ہے جس نے انھیں جنم دیا ( لیکن انھوں نے ) کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا میں تمھیں اپنی اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حدیث نہ سناؤں ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ! کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ( ایک دفعہ ) جب میری ( باری کی ) رات ہوئی جس میں نبی کریم ﷺ میرے ہاں تھے ، آپ ( مسجد سے ) لوٹے ، اپنی چادر ( سرہانے ) رکھی ، اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا ، پھر لیٹ گئے ۔ آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں ، تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی ، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا ، نکلے ، پھر اس کو آہستہ سے بند کر دیا ۔ ( یہ دیکھ کر ) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری ( جلدی سے پہنی ) ، اپنا دوپٹہ اوڑھا اور اپنی آزار ( کمر پر ) باندھی ، پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع ( کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہو گئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے ، پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے ، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی ، آپ تیز ہو گئے تو میں بھی تیز ہو گئی ، آپ تیز تر ہو گئے تو میں بھی اور تیز ہو گئی ، آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کر دیا ۔ میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہو گئی ۔ جونہی میں لیٹی آپ بھی گھر میں داخل ہو گئے اور فرمایا :’’ عائشہ ! تمھیں کیا ہوا ؟ کانپ رہی ہو ؟ سانس چڑھی ہوئی ہے ۔‘‘ میں نے کہا : کوئی بات نہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف و خبیر ( باریک بین ہے ، انتہائی باخبر ) ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! اور میں نے ( پوری بات ) آپ کو بتا دی ۔ آپ نے فرمایا :’’ تو وہ سیاہ ( ہیولا ) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا ، تم تھیں ؟‘‘ میں نے کہا : ہاں ۔ آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی ، پھر آپ نے فرمایا :’’ کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول ؟‘‘ ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : لوگ ( کسی بات کو ) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کو جانتا ہے ، ہاں ۔ آپ نے فرمایا :’’ جب تو نے ( مجھے جاتے ہوئے ) دیکھا تھا اس وقت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ انھوں نے ( آ کر ) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا ، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی اس کو تم سے مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آ سکتے تھے کہ تم کپڑے اتار چکی تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سو چکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ تم ( اکیلی ) وحشت محسوس کرو گی ۔ تو انھوں ( جبریل علیہ السلام ) نے کہا : آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لیے بخشش کی دعا کریں ۔‘‘ ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! میں ان کے حق میں ( دعا کے لیے ) کیسے کہوں ؟ آپ نے فرمایا :’’ تم کہو ، مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو ، اللہ تعالیٰ ہم میں سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے ، اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ۔‘‘ [صحيح مسلم، حدیث نمبر:2256، کتاب: جنازے کے احکام ومسائل]
دونوں میں فرق واضح فرما دیں۔جزاک اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگرچہ بعض اہل علم نے مذکورہ حدیث سے عورتوں کے قبرستان جانے کے جواز پر استدلال کیا ہے تاہم ان حضرات کا یہ استدلال تام نہیں کیونکہ اس میں صرف اتنی بات ہے کہ اگر میں قبرستان والوں کے لیے دعا کروں تو کیسے کروں؟ ظاہر ہے کہ اس دعا کے کرنے کے لیے قبروں کی زیارت کے ارادے سے جانا ضروری نہیں بلکہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے قبرستان کے پاس سے گذرتے ہوئے بھی قبرستان والوں کے لیے مذکورہ دعا کی جاسکتی ہے جیساکہ لاہور میں” میانی صاحب "قبرستان کے پاس سے گذرنے کی نوبت آتی رہتی ہے اور اگرا س اس بات سے استدلال کیا جائے کہ حضرت عائشہؓ بھی حضورﷺ کے پیچھے قبرستان گئیں تھیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ قبرستان کے قصد سے نہیں گئیں تھیں بلکہ حضورﷺ کی تلاش میں گئیں تھیں۔اور اگر اس استدلال کو درست مان لیا جائے تو جن روایات میں عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا ہے انہیں منسوخ ماننا پڑے گا حالانکہ انہیں منسوخ ماننے کی کوئی مجبوری نہیں اور اگر انہیں منسوخ مان لیا جائے تو تعدد نسخ ماننا پڑے گا کیونکہ زیارت کی ممانعت سے پہلے اباحت تھی جو ممانعت کی روایت کی وجہ سے منسوخ ہوئی اور پھر یہ ممانعت اجازت کی وجہ سے منسوخ ہوئی جبکہ نسخ اور بالخصوص تعدد نسخ خلاف اصل ہے۔
اعلاء السنن (8/331) میں ہے:
عن عائشة رضى الله تعالى عنها فى حديث طويل: (قلت: كيف أقول لهم يا رسول الله؟ قال: قولى: السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمتأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون. رواه مسلم
قال بعض الناس: لانه عليه السلام لم ينكر عليها الزيارة: قلت: لادلالة فيه على ذلك فان الحديث انما سبق لتعليم السلام على أهل القبور دون اباحة الزيارة للنساء وقد تمر المرأة على أهل القبور في مسيرها من غير قصد الزيارة فتحتاج إلى التسليم عليهم فلايلزم من تعليمه لهن إباحة الزيارة قصدا، لاسيما وقد علم النبى صلى الله عليه وسلم كونه يدفن في بيت إحد أزواجه فلعله علمها السلام على اهل القبور لأجل ذلك. فافهم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved