- فتوی نمبر: 12-266
- تاریخ: 18 جولائی 2018
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
برکت کو سمجھنے کے لیے ایک مثال:
’’ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ کتے بیک وقت سات سات بچے جنتے ہیں ، جبکہ بھیڑ بکریاں بیک وقت ایک یا دو یا کبھی تین بچے جنتے ہیں اس کے باوجود بھیڑ بکریوں کی تعداد ہر جگہ کتوں سے زیادہ ہوتی ہے، حالانکہ ہم آئے روز بھیڑ بکریوں کو ذبح بھی کرتے ہیں ، قربانی بھی کرتے ہیں ، پھر بھی وہ ہمیشہ کتوں سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بکریاں رات کے اول حصے میں سوتی ہیں اور تہجد کے وقت اٹھ جاتی ہیں اور برکت لے لیتی ہیں جبکہ کتے رات کے اول حصے میں جاگتے ہیں اور آخری حصے میں سوتے ہیں اس لیے ان میں برکت نہیں ہے۔‘‘
کیا روایت صحیح ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کی ذکر کردہ روایت تو تلاش کے باوجود نہیں ملی، البتہ بعض دیگر روایات سے بکریوں میں برکت ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کتاب ادب المفرد میں ہے:
عن ابن عباس رضي الله عنه قال: عجبت للکلاب و الشاة ان الشاة يذبح منها في السنة کذا و کذا و يهدي کذا و کذا و الکلب تضع الکلبة الواحدة کذا و کذا و الشاة اکثر منها۔ (ادب المفرد: رقم الحديث: 575)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کتے اور بکری کے متعلق مجھے تعجب ہے کہ بکریاں سال بھر کتنی تو ویسے ذبح ہوتی ہیں اور کتنی ہی قربان کی جاتی ہیں ، اور ایک کتیا کئی بچے دیتی ہے (اور ذبح بھی نہیں ہوتے) اس کے باوجود بکریوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اسی طرح ابن ماجہ میں ہے:
عن ام هانئ ان النبي ﷺ قال لها: اتخذي غنماً فان فيها برکة۔ (رقم الحديث: 2304)
ترجمہ: آپ ﷺ نے حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے فرمایا: بکریاں پالا کرو کیونکہ ان میں برکت ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved