- فتوی نمبر: 7-8
- تاریخ: 23 جنوری 2014
استفتاء
ہمارا گاؤں*****ہے جو کاہنہ نو اور ہلو کے درمیان میں واقع ہے۔ ہمارے گاؤں کی آبادی تقریباً سات آٹھ سو افراد ہیں اور گاؤں میں تقریبا 350 گھر ہیں، (مذکورہ آبادی مردوں کی ہے) ہمارے گاؤں میں پرچون وغیرہ کی تقریبا چالیس دکانیں ہیں، میں روڈ ہمارے گاؤں کے درمیان سے گذر رہا ہے اس وجہ سے دکانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور بازار کی شکل بن گئی ہے، سنارے کی اور کپڑے کی دکان کے علاوہ دیگر قریباً تمام اشیاء ہمارے گاؤں میں مل جاتی ہیں، گاؤں کی آبادی کی شکل یہ ہے کہ اس کے چاروں طرف کھیت ہیں اور گاؤں کی آبادی کسی دوسری آبادی سے ملی ہوئی نہیں ہے، بچوں اور عورتوں سمیت گاؤں کی کل آبادی تقریباً 3500 ہے، ہمارے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں، دو مسجدیں پہلے سے ہیں اور تیسری مسجد زیر تعمیر ہے، پہلے سے کسی مسجد میں جمعہ نہیں ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ہم گاؤں کی تینوں مسجدوں میں جمعہ کی نماز شروع کر سکتے ہیں؟ ہمارے گاؤں میں ظہر کی نماز ادا
کی جاتی ہے، گاؤں میں سے بہت سے افراد جمعہ کے دن جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے کاہنہ جاتے ہیں جو کہ تقریباً تین کلو میٹر دور ہے، ہمارے علاقے میں ہی ذرا دور ایک اور گاؤں رسول پورہ ہے جو ہمارے گاؤں سے چھوٹا ہے اور سبھی امور میں ہمارے گاؤں سے پیچھے ہے وہاں جمعہ ہو رہا ہے، ہمارے گاؤں سے ایل ڈی اے سٹی کی طرف جانے والی روڈ گذر رہی ہے، جو 300 فٹ روڈ ہے اور ہمارا گاؤں اسی سکیم کا حصہ بن چکا ہے، گاؤں کو لاہور ہی کا کوڈ 042 لگتا ہے۔ آپ حضرات یہ بتائیں کہ کیا ہم اپنے گاؤں میں جمعہ کی نماز شروع کر دیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہاء حنفیہ کے نزدیک جمعہ واجب اور صحیح ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ ایک شرط اس جگہ کا شہر یا بڑی بستی (قصبہ) ہونا ہے، چھوٹے گاؤں میں جمعہ جائز نہیں ، البتہ شہر یا بڑی بستی کی تعریف میں فقہاء کرام کے تقریباً 9 اقوال ہیں جیسا کہ ان کی تفصیل "بدائع الصنائع: 1/ 584” میں موجود ہے، ان اقوال میں دو قولوں کو زیادہ راجح قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلا قول وہ ہے جو امام صاحب سے مروی ہے:
و روي عن أبي حنيفة رحمه الله أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق و لها رساتيق و فيها وال يقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحكمه و علمه أو علم غيره و الناس يرجعون إليه في الحوادث و هو الأصح. (بدائع الصنائع: 1/ 585)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایسی بڑی بستی ہو جس میں گلیاں ہوں، بازار ہوں، محلے ہوں اور اس میں کوئی ایسا بڑا حاکم ہو جو اپنے فیصلے اور اپنے علم یا دوسرے کے علم کے ذریعے مظلوم کو ظالم سے انصاف دلانے پر قادر ہو اور لوگ اپنے پیش آمدہ واقعات و حوادث میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہی قول اصح ہے۔
دوسرا قول یہ ہے:
المصر و هو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه الفتوی أكثر الفقهاء. مجتبی . لظهور التواني في الأحكام. (الدر المختار: 3/ 6)
یعنی شہر اور بڑی بستی وہ جگہ ہے کہ وہاں کی مسجدوں میں سے سب بڑی مسجد میں اس جگہ کے تمام مکلفین (یعنی جن پر جمعہ فرض ہے) پورے نہ آ سکیں۔
اگرچہ عام طور سے فقہاء نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے لیکن پہلا قول اپنی تمام تر قیودات کے ساتھ اچھے خاصے بڑے بڑے قصبوں پر منطبق نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ ہمارے دور میں ایسی بہت سے بستیوں میں نماز جمعہ کا رواج ہو چکا ہے جو عموماً دوسرے قول کے مطابق تو بڑی بستی کہلا سکتی ہے لیکن پہلے قول کے مطابق نہیں کہلا سکتی۔ اس لیے جس بستی پر دوسرے قول کے مطابق بھی بڑی بستی کا اطلاق ہو سکتا ہے خصوصاً ایسی بستی میں جس میں گلیاں، محلے اور ضرورت کی تقریباً سب چیزیں ملتی ہوں ایسی بستی میں جمعہ قائم کرنا درست ہے۔ سوال میں آبادی، دکانوں، میں روڈ وغیرہ امور کی جو صورتحال ذکر کی گئی ہے ان امور کے پیش نظر یہ گاؤں بڑی بستی کے حکم میں ہے جس میں نماز جمعہ قائم کرنا درست ہے۔
تنبیہ: اگر بستی والوں کی طرف سے زور نہ ہو تو جمعہ شروع نہ کرنے میں احتیاط ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved