- فتوی نمبر: 1-295
- تاریخ: 17 نومبر 2007
استفتاء
میری بھانجی **** کی شادی **** کے ہمراہ 2001ء کو قرار پائی۔ گھر پر معمولی بات پر مارپیٹ کا معمول شوہر کی طرف سے رہتا رہا۔ روز مرہ کی مار پیٹ سے تنگ آکر بیوی نے ایک شدید مارپیٹ کے بعد شوہر سے اقرار لیا کہ اس صورت پر اس گھر میں مزید رہوں گی کہ مجھے بطور تحریر آئندہ نہ مارنے کی یقین دہانی کراؤ۔ چنانچہ مئی 2005ء کو شوہر نے یقین دلایا اور ان الفاظ میں تحریر دی ” میں آج سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ **** پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا بصورت دیگر میرا اور **** ( میری بیوی) کا رشتہ ختم ہوجائے گا”۔ چنانچہ مورخہ 25 اکتوبر 2007ء پھر **** نے اپنی بیوی **** کو شدید زدو کوب کیا اور چیخ و پکار پر اہل محلہ جمع ہوگئے اور اس نے کہا کہ” میرے گھر سےفوراً چلی جاؤ”۔ آپ سے گذارش ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں میاں بیوی کے رشتہ کی نوعیت واضح کریں کہ شوہر کے مذکورہ الفاظ سے طلاق کی کیا نوعیت ہے؟ کیا دوبارہ ان کی صلح ممکن ہے؟
شوہر کا بیان
میں نے جو الفاظ کہے تھے کہ ” اگر میں نے دوبارہ ہاتھ اٹھایا تو میرا تعلق اپنی بیوی سے ختم ہو جائے گا” یہ تحریر میں نے مجبور کرنے پر لکھی اور اس تحریر کو لکھتے وقت میری نیت تعلق ختم کرنے کی بالکل نہیں تھی۔ ( ****)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ الفاظ کہ ” بصورت دیگر میرا اور **** ( میری بیوی) کا رشتہ ختم ہو جائے گا” اور ” میرے گھر سے فوراً چلی جاؤ” کنایہ کے الفاظ ہیں۔ لہذا ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے یعنی ایک طلاق بھی ہوئی اور نکاح بھی ٹوٹ گیا۔ اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہیں تو تجدید نکاح ضروری ہے۔
و في الخلاصة لم يبق بيني و بينك عمل أو شيئ أو أمثال ذلك يقع. ( عالمگیری: 2/ 292)
© Copyright 2024, All Rights Reserved