• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو اصل نام کے بجائے بیوی کے مشہور نام سے طلاق دینا

استفتاء

محترم مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا  ہے کہ میرا صبح کے وقت اپنی بیوی سے کچھ جھگڑا ہوا اور میں کام پر چلا گیا۔ بعد میں دوپہر کو آیا ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پھر چلا گیا۔ بعد میں شام کو آیا تو پتا چلا کہ وہ اپنے تایا کے گھر سامان لے کر چلی گئی ہے۔ میں اس کو لینے گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنی بیوی سے پوچھو  وہ تیار ہے تو لے جاؤ۔ وہ بولی میں نے نہیں جانا، پھر اس کے تایا نے کہا کہ ایک ہفتے بعد تمہارا جرگے میں فیصلہ ہو گا۔ بعد میں لڑکی سے فون پر بات ہوتی تھی، ملنے بھی گیا، اس کا کہنا تھا کہ میرے خاندان والوں کا مجھ پر بہت دباؤ ہے اس کی وجہ سے میں سامنے یہی کہوں گی کہ میں نے نہیں آنا۔ ایک ہفتے بعد جب جرگہ ہوا تو انہوں  (تایا) نے کہا کہ ہم نے طلاق لینی ہے، ہم نے ان کی منت کی، مہلت مانگی مگر وہ نہ مانے اور مجھے دھمکی دی کہ اگر نہیں دو گے تو تمہاری نوکری ختم کروا دیں گے اور کیس کر دیں گے، ڈھائی لاکھ حق مہر کا بھی وصول کریں گے اور کیس کا خرچہ بھی لیں گے۔ میں نے مجبور ہو کر ان کے کہنے پر تین مرتبہ طلاق دی۔ الفاظ یہ تھے ’’میں نے زائرہ کو طلاق دی‘‘، تین دفعہ یہ جملہ بولا۔ مگر میری بیوی کو عام طور پر زائرہ کہہ کر بلاتے ہیں جبکہ نکاح نامے پر اس کا نام*** ہے۔ میں نے یہ نیت کر کے کہ میری بیوی کا اصل نام تو ***ہے اس لیے میں زائرہ کہہ کر طلاق دیتا ہوں اور نیت کسی اور کی کی۔ یعنی یہ سوچا کہ چونکہ طلاق نامے پر اصل نام ہے وہ نام نہیں لے رہا بلکہ دوسرا نام لے رہا ہوں جو کہ میری بیوی کا نہیں ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے میرے سے کاغذات پر سائن بھی کروائے (جس کی نقل ساتھ لف ہے)۔ جس کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس پر کیا لکھا ہوا تھا۔

وضاحت: شادی کے بعد شروع شروع میں میں بھی اس کو زائرہ ہی کہتا تھا پھر میں نے کسی عامل کے کہنے پر اس کانام ***رکھ دیا۔ لیکن ہمارے گھر والوں کے درمیان شروع سے ہی وہ دلہن کے نام سے مشہور ہے۔ میکے والوں میں  والوں میں تو وہ اب بھی زائرہ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اپنے تایا کے ہاں بھی وہ زائرہ ہی کے نام سے مشہور ہے۔

نوٹ: بیو نے فون پر مذکورہ بالا بیان کی تصدیق کی اور اس سے اتفاق کیا۔ (دار الافتاء)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ: شوہر نے اگرچہ بیوی کا اصل نام (جو نکاح نامہ میں درج ہے) لے کر طلاق نہیں دی بلکہ اس کا میکے والوں اور اپنے  ہاں مشہور نام لے کر طلاق دی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مشہور نام لے کر طلاق دینے سے  طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ شوہر کا یہ کہنا کہ ’’زائرہ کو طلاق دینے سے نیت کسی اور عورت کی تھی‘‘ معتبر نہیں۔

في الهندية (1/ 358):

رجل قال طلقت امرأة أو قال امرأة طالق ثم قال لم أعن امرأتي يصدق و لو قال عمرة طالق و امرأته عمرة و قال لم أعن امرأتي لم يصدق قضاءً كذا في المحيط.

و في الخانية على هامش الهندية (1/ 465):

و كذا لو قال بنت فلان طالق ذكر اسم الأب و لم يذكر اسم المرأة و امرأته بنت فلان و قال لم أعن به امرأتي لا يصدق قضاءً و تطلق امرأته…… لو قال عمرة طالق و امرأته عمرة طلقت امرأته و لا يصدق قضاءً في صرف الطلاق عنها.

و في رد المحتار (4/ 509):

لو قال لامرأته طالق و لم يسم و له امرأة معروفة طلقت استحساناً و إن قال لي امرأة أخرى و إياها عنيت لا يقبل قوله إلا ببينة. و في الشامية تحت قوله (و لم يسم) أما لو سماها باسما فكذلك بالأولى و يقع على التي عناها أيضاً لو كانت زوجته. قال في البزازية: و لو قال فلانة بنت فلان طالق ثم قال أردت امرأة أخرى أجنبية بذلك الاسم و النسب لا يصدق و يقع على امرأته … و كذا لو قال: زينب طالق و هو اسم امرأته ثم قال أردت به غير امرأتي لا يصدق و يقع عليهما إن كانتا زوجتين له.

و في الدر المختار (4/ 510):

و في النهر قال: فلانة طالق و اسمها كذلك و قال عنيت غيرها دين و لو غيره صدق قضاء.

و في التنوير مع الدر (4/ 427):

و يقع طلاق كل زوج بالغ عاقل و لو عبداً أو مكرهاً فإن طلاقه صحيح. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved