• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چل فیر تینوں میرے الوں فیصلہ اے

استفتاء

میں اپنےشوہر کے نکاح میں گذشتہ تیرہ سال سے رہ رہی ہوں۔ میرے شوہر کا میرے اور میرے بچوں کے بارہ میں رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ کچھ دن پہلے میرے اور میرے شوہر کے درمیان غصہ کی حالت میں درج ذیل مکالمہ پیش آیا ہے۔ براہ مہربانی مجھے فقہ حنفی کی روشنی میں بتایا جائے کہ اس صورت میں کوئی طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟۔

مکالمہ (2011۔ 07۔ 29)

شوہر: ( *** ) تمہارے گھر والےا س گھر میں کیا لینے آتے ہیں؟

بیوی: انہوں نے یہاں بیٹی دی ہے وہ آئیں گے۔

شوہر: میں تمہیں منع کرتا ہوں کہ آئندہ ان میں سے  کوئی اس گھر میں نہیں آئے گا۔

بیوی: آپ یہاں  نہیں ہوتے پیچھے سے گھر والے میرا اور بچوں کا خیال رکھتے ہیں میں انہیں نہیں چھوڑ سکتی۔

شوہر: تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ میرے ساتھ رہنا ہے یا اپنے گھر والوں کے ساتھ۔

بیوی: میں اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔

شوہر:” چل فیر تینوں میرے الوں فیصلہ اے” ( یہ فقرہ پنجابی زبان میں کہا)۔

بیوی: آپ نے کیا کہا اور انہیں بات دھرانے کا کہا لیکن شوہر نے بات بدل دی۔

نوٹ: میرے شوہر مجھے مختلف مواقع پر ان جملوں کے ذریعے دھمکی وغیرہ دیتے رہتے تھے۔ مثلاً "آ ج میں تیرا فیصلہ کرن آیاں”، ” آن میں تیرا فیصلہ کر کے ہی جاواں گا” وغیرہ۔ اس مذکورہ صورت میں اگر کوئی طلاق واقع ہوگئی ہے تو وہ کونسی طلاق ہے۔ اور عدت کب سے شروع سمجھی جائیگی؟۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں نکاح ٹوٹ چکا ہے  اور ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔ اگر دنوں اکٹھے رہنا چاہیں تو نیا نکاح کرنا ہوگا۔

و قسم لا يحتمل الرد و لا السب بل يتمحض للجواب و في الغصب تو قف الأوّلان  إن نوي وقع إلا لا.(شامی، ص: 502، ج 2 )

2۔ شوہر نے جب سے مذکورہ الفاظ کہے ہیں اس کے بعد سے عدت شروع سمجھی جائے گی۔

ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق. (ہدایہ، ص: 425، ج: 2 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved