- فتوی نمبر: 199-27
- تاریخ: 23 اگست 2022
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں کہ :
(1)محرم کی نویں اور دسویں کو روزہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ۔
(2)بال بچوں کیلئے دسویں محرم کو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو انشاءاللہ سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی۔
3 بہتر ہے کہ کھچڑا پکا کر حضرت شہید کربلا سیدنا امام حسین کی فاتحہ کرے بہت مجرب ہے۔
(4) اسی تاریخ یعنی 10 محرم الحرام کو غسل کرے تو تمام سال انشاءاللہ بیماریوں سے امن میں رہے گا۔(تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ 142)
کیا یہ باتیں درست ہیں یا بدعت ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) یہ بات درست ہے ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دس محرم کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
صحیح مسلم (رقم الحدیث:1162) میں ہے:
سئل عن صوم يوم عاشوراء فقال يكفر السنة الماضية.
(2)یہ بات بھی درست ہے ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ 10 محرم الحرام کو اپنے اہل خانہ پر وسعت کرنے سے سارا سال اللہ تعالیٰ وسعت عطا فرماتے ہیں، تاہم وسعت اچھے اچھے کھانے پکانے میں ہی منحصر نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص اچھے کھانے پکانے کے بجائے کپڑوں وغیرہ میں وسعت کرے یعنی دس محرم کو ان کے لیے اچھے کپڑے خرید کر دیدے تو اس کو بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہوگی۔
شعب الایمان (رقم الحدیث:3794) میں ہے:
من وسع على أهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته
(3)کھچڑا پکانے کی کوئی سند نہیں۔
کفایت المفتی (94/9) میں ہے:
سوال :زید کہتا ہے کہ شربت پلانا کھچڑا پکانا … یہ سب سنت ہے اس وجہ سے سنت ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جو دی پر جا کر لگی تو کشتی سے اتر کر کھچڑا پکایا یہی دن عشرہ محرم کا تھا۔
الجواب: کھچڑا پکانے کی کوئی سند نہیں یہ بالکل بے اصل ہے البتہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنا اور اپنے اہل و عیال پر رزق یعنی کھانے پینے کی اس روز فراخی کرنا مسنون ہے ….اور جو کام روافض کرتے ہیں ان میں ان کی مشابہت اہلسنت کو نہیں کرنی چاہیے۔
(4) یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ‘‘ (جو من گھڑت احادیث کو بیان کرنے کے لیے لکھی گئی ہے) میں ہے:
من اغتسل يوم عاشوراء لم يمرض إلا مرض الموت……. موضوع و رجاله ثقات، و الظاهر أن بعض المتأخرین وضعه و ركبه على هذا الإسناد. (ص: 110).
ترجمہ: ’’جو شخص عاشورہ کے دن غسل کرے اسے سوائے موت کے کوئی بیماری نہیں لگے گی‘‘……اگرچہ سند میں ذکر کردہ راوی معتبر ہیں لیکن یہ حدیث من گھڑت ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے لوگوں میں سے کسی نے اس کو گھڑا ہے اور اس سند کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved