• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دس محرم الحرام كو فضائل عمر فاروقؓ وحسينؓ پر محفل كروانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہر دس محرم الحرام کو فضائل سیدنا فاروق و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما پر محفل کروانا جائز ہے؟ اور اس محفل میں کسی سال لوگوں کے لئے میٹھے پانی کا انتظام کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہر دس محرم الحرام کو فضائل سیدنا فاروق و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما پر محفل کروانا جائز نہیں،البتہ اگر دس محرم الحرام اور ماہ محرم الحرام کی تخصیص و تعیین نہ کی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔اور میٹھے پانی کا انتظام دونوں صورتوں میں  جائز نہیں کیونکہ اس میں اہل تشیع کی مشابہت ہے۔

امداد الفتاوى(5/322)میں ہے:

سوال: محرم کے اول دہا میں مجلس وعظ قرار پاتی ہے اکثر پانچ چھ تاریخ سے وعظ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں جمع المجلس لبکاء الناس نہیں ۔ نہ کوئی سینہ زنی کرے نہ نوحہ کرے نہ مرثیہ پڑھے نہ اپنا نہ دوسرے کا سر کچلے نہ نوچے نہ کھسوٹے  بلکہ واعظین تو سامعین وحاضرین کو ان کی مجلس میں جانے سے سخت تہدید کرتے ہیں اور ان کے طریقوں سے باز رکھاتے۔بانی مجلس کی یہ غرض رہی ہے کہ مجلس وعظ قرار پائے  لہٰذا یہ پوچھنا ہے کہ اس مجلس کے تقرر سے بانی مجلس کی منشاء اور غرض یہی ہے کہ جب تک مجلس ختم نہ ہو تب تک لوگ قال اللہ قال الرسول اور کتاب عناصر میں جس جس کا بیان جس جس دن آتا ہے سنیں اوران گناہوں سے بچیں  ایسی مجلس کا قرار دینا درست ہے یا نہیں؟ اگر یہ برخاست ہو گئی تو پھر دو تین گھڑی تک جو گناہ سے لوگ بچے رہے نہ بچیں گے یہ بہتر یا مجلسِ قرار بہتر ؟

اور بعض کہتے ہیں کہ جب شہادت امام حسینؑ وغیرہ کا بیان کرنا درست نہیں اور تعزیہ وغیرہ بھی دیکھنا درست نہیں تو دونوں یکساں ٹھہرے، لہٰذا زید کہتا ہے کہ شہادت کا بیان کرنا حرام ہے اور عمرو کہتا ہے کہ نہیں ، زید تشبہ بالروافض کو پیش کرتا ہے ۔ اگر ناجائز ہے تو اس کے پڑھنے کا کوئی حیلہ مرحمت فرمائیے ۔

کیا امام حسین علیہ السلام ہی کی شہادت بیان کرنا ناجائز ہے یا اور کسی کی بھی؟ یا یہ خصوصیت عشرۂ اول محرم کی وجہ سے نا درست ہے یا کیا؟ اگر ایسا ہے تو بے موقع اور بے محل کسی چیز کا بیان کرنا بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا جیسے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ربیع الاول میں نہ پڑھا گیا، کسی دوسرے ماہ میں ہوا، تو یہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا، اسی طرح اور بھی سب ہیں  جوبے موقع پڑھے جائیں یا بیان کیے جائیں ، یہ ٹھیک نہیں ہوتا اور اگر خاص ایام کی وجہ سے اس کا بیان کرنا نا درست ہے پھر توپنج وقتہ نماز معینہ اور خاص پہلی تاریخ کے دن عید ودس(۱۰) تاریخ کو بقر عید ومحرم، شادی بیاہ جس کے لیے وقت مقرر ہے اور ہوتا ہے۔ سب کے سب نا درست ہیں ان کا بھی اور وقت میں ہونا یا کرنا واجب ہے۔ مخدومنا ان سب کا جواب جدا گانہ تحریر شدہ مرحمت فرمائیے ممنون ہوگا۔ والسلام

الجواب:تشبہ بالروافض جیسے بکاء ونوحہ میں ہے،ایسے ہی تخصیص عاشوراء میں بھی ہے بلکہ ایسی تخصیص خود بھی بدعت ہے اگر چہ اس میں تشبہ بھی نہ ہو اور قیاس اس تخصیص کا اوقات نماز وغیرہ کی تخصیص پر یا شادی بیاہ کی تاریخ کی تعیین پر قیاس مع الفارق ہے،اول مقیس علیہ میں تو تخصیص خود منصوص من الشارع ہے تو اس کے ساتھ تخصیص من غیر الشارع کیسے ملحق ہو سکتی ہے اور دوسرے مقیس علیہ میں تخصیص کو کوئی شخص دین نہیں سمجھتا اور اس کو دین سمجھتے ہیں ، فکیف ہذا من ذاک اور مباح کو جزودین سمجھنا خود بدعت ہے، اور تخصیص کی توجیہ میں یہ کہنا کہ بے محل بیان کرنا بھی اچھا نہیں عجیب ہے، اور فی الواقع شارع علیہ السلام پر اعتراض ہے، کہ مطلق کو مقید کیوں نہیں کیا؟ کیوں کہ اس مقید نہ کرنے سے یہی بے محل واقع ہونا لازم آوے گا جس کو مدعی بے محل بتلا رہے ہیں ۔

 رہی یہ مصلحت کہ اس مجلس کی وجہ سے عوام جہلاء منہیات سے رُکتے ہیں ، اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ ایک معصیت کو اس لیے اختیار کیا جاوے کہ دوسرے معاصی سے حفاظت رہے تو اس مصلحت سے بدعت کا ارتکاب جائز نہیں ہو سکتا۔

 دوسرے یہ مصلحت تو اس سے بھی حاصل ہو سکتی ہے کہ دوسرے مضامین حکمیہ کا وعظ ہوا کرے یہ قصص اصلاً مذکور نہ ہوں اور اگرشبہ ہو کہ اس میں کوئی نہ آوے گا یا کم آویں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فعل آنے والوں کا ہے، واعظ یا باقی مجلس کو اس کی کیا فکر یہ اپنی طرف سے سدّمفاسد کی سعی کرے، آ گے خواہ اثر مرتب ہو یا نہ ہو۔

 تیسرے اگر عوام کے مذاق کی ایسی ہی رعایت کی جائے تو ان کی جتنی قبیح رسمیں ہیں ہر ایک کے مقابل رسمیں ہیں ، ہر ایک کے مقابل وہی رسم اصلاح کر کے منعقد کرنا جائز ہوگا تو تعزیہ وعلَم کی بھی کسی قدر اصلاح کر کے اجازت ہونا چاہیے اور اصلاح یہ ہو سکتی ہے کہ تعزیہ کی پرستش اور اس پر چڑھاوا اور معازف وغیرہ نہ ہو، صرف مکان کی تصویر ہو اس کے ساتھ مباح اشعارہوں اور مباح دف ہو، علیٰ ہذا تمام رسوم میں بھی ایسا ہی کر سکتا ہے اور بعض کتب میں ایسے شخص کو اجازت دینا جو کہ اور قصص بھی بیان کرے یہ صرف رفع ہے ایک مانع جواز کا اور وہ مانع تخصیص مضمون ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر دوسرے موانع بھی ہوں تب بھی جواز کا حکم ہوگا سو ایک مانع خود تخصیص زمانہ کی بھی ہے۔ کما ذکر غرض میرے نزدیک اصول فقہیہ کا مقتضاء اس مجلس کا قطعاً موقوف کردینا ہے۔ واللہ اعلم۔

فتاوی رشیدیہ(1/203)میں ہے:

سوال: یوم عاشورہ کو یوم شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ گمان کرنا و احکام ماتم و نوحہ و گریہ و زاری و بے قراری کے برپا کرنا اور گھر گھر مجالس شہادت منعقد کرنا اور واعظین کو بھی بالخصوص ان ایام میں شہادت نامہ یا وفات نامہ بیان کرنا خاص کر روایات خلاف و ضعیفہ سے اور سامعین کو بھی ان امور میں ہر سال کوشش ہونی کہ اس کے مثل وعظ میں نہیں ہوتی ہرگز اور خاص ایام مذکورہ ہی میں ایصال ثواب و صدقات کرنا اور تعین آب و طعام بھی مثل شربت ہے یا کھچڑا ہے اور ہر غنی اور فقیر کو اس کا لینا اور تبرک جاننا اور جو غنی یا سید اس کو نہ لیوے تو مطعون کریں اور بر اجانیں اور فی الجملہ ریا کو اس میں بہت دخل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں امید ثواب کی ہو سکتی ہے یا نہیں اور یہ کل امور بدعات و معصیت ہیں یا نہیں؟

جواب:ذکر شہادت کا ایام عشرۂ محرم میں کرنا بمشابہت روافضل کے منع ہے اور ماتم نوحہ کرنا حرام ہے۔ في الحدیث:نهى عن المراثي الحدیث،اور خلاف روایات بیان کرنا سب ابواب میں حرام ہیں۔ تقسیم صدقات بتخصیص ان ایام کرنا اگر یہ جانتا ہے کہ آج ہی زیادہ ثواب ہے تو بدعت ضلالہ ہے علی ہذا تخصیص کسی طعام کی کسی یوم کے ساتھ کرنا لغو  ہے اور صدقہ کا طعام غنی کو مکروہ او رسید کو حرام ہے اس پر طعن کرنا فسق ہے ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

فتاوی رشیدیہ(1/204)میں ہے:

سوال: محرم میں عشرہ وغیرہ کے روز شہادت کا بیان کرنا مع اشعار بروایت صحیح یا بعض ضعیفہ و نیز سبیل لگانا اور چندہ دینا اور شربت دودھ بچوں کو پلانا درست ہے یا نہیں؟

جواب: محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنااگرچہ  بروایت صحیحہ ہو یا سبیل لگانا شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نادرست اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہیں، فقط۔

فتاوی خلیلیہ(1/348)میں ہے:

سوال:حضرات خلفاءثلاثہ رضی اللہ عنہم کے متعلق باتیں شیعوں کی جن مقامات کے سنیوں میں پہنچتی ہیں ان مقامات کی ہر تقریب ذکر بزرگان دین میں ذکر فضائل خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم ضروری ہے یا نہیں؟

جواب :حضرات خلفاء  ثلاثہ یعنی صدیق اکبر وفاروق اعظم وغنی اکرم رضی اللہ عنہم کے متعلق یا ائمہ ثلاثہ  یعنی حضرت علی وحضرت حسن وحضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق شیعوں کی باتیں جن مقامات کے سنیوں میں پہنچتی ہوں یا پہنچنے کا احتمال ہو ان مقامات پر ہر تقریب ذکر صالحین میں بیان فضائل خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم ضروری اور سخت ضروری ہے۔

اس پر حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:

اور اس کے ساتھ  ایک مشورہ احقر بھی عرض کرتا  ہے کہ مناسب ہے کہ کوئی مجلس خاص اس ذکر کے لیے منعقد نہ کی جائے ورنہ خدشہ ہے کہ چند روز میں اس مجلس کا حال محفل مولود کا سا نہ ہوجائے، اورمواعظ کے ساتھ یہ ذکر بھی ہوجایا کرے۔و السلام علی من اتبع الهدى.

براہین قاطعہ(117)میں ہے:

قولہ علیہ السلام:’’ لا تختصوا‘‘یہ بھی مطلق وارد ہوا ہے، تخصیص خواہ اعتقاد وعلم میں خواہ عمل میں دونوں ناجائز ہویں گی،سو یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ تخصیص فعلی اگر منصوص مطلق میں واقع ہووے گی وہ بھی بدعت ہے اور داخل نہی ہے۔

کفایت المفتی(1/201)میں ہے:

(سوال)محرم کے عشرۂ اول میں دس دن شہادت کا بیان کروانا کیسا ہے۔ اور ایسی مجلس میں شریک ہونا کیسا ہے؟

 (جواب) بیان شہادت کے لیے انعقاد مجلس بدعت ہے۔  ہاں وعظ و تذکیر کے لیے جائز ہے۔

کفایت المفتی(9/48)میں ہے:

سوال: آج  کل محرم کا چاند ہے جنگ نامہ جو مسجد میں پڑھا جاتا ہے جائز ہے یا نہیں اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پڑھنا کیسا ہے اور اگر مسجد میں پڑھا جائے تو کیسا ہے ؟ 

جواب:اتفاقیہ طور پر ذکر شہادت حسین ؓ اور اس پر اظہار افسوس ایک امر مستحسن ہے لیکن ذکر شہادت کے لئے خاص مجلسیں منعقد کرنا  اور یہ تخصیص  کہ محرم کے دس دن کے اندر ہو اور اس ہئیت کے ساتھ ہو اور شیرینی تقسیم کرنا یہ سب باتیں بدعت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved