- فتوی نمبر: 9-280
- تاریخ: 13 فروری 2017
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی مسجد ہے، میں عالم نہیں لیکن حافظ ہوں۔ اس لیے اکثر میں ہی نماز پڑھاتا ہوں اور چھوٹے بچوں کو ناظرہ بھی پڑھاتا ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک مسجد میں نماز پڑھا رہا تھا اور میری داہنی جانب تقریباً ایک فٹ کے فاصلہ پر رحل پر قرآن شریف رکھا ہوا تھا، نماز پڑھاتے ہوئے وہ قرآن کا نسخہ خود بخود نیچے گر گیا، میں جب سجدے میں گیا تو میں نے اپنا داہنا ہاتھ بڑھا کر دوران سجدہ ہی اس قرآن کے نسخہ کو واپس رحل کے اوپر رکھ دیا۔ آیا میری اس حرکت سے نماز تو فاسد نہیں ہوئی؟ اگر ہوئی تو اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کی نماز فاسد نہ ہو گی۔ کیونکہ قرآن پاک کو اٹھا کر رحل پر رکھنا ایسا عمل نہیں کہ جس کے لیے عام طور سے دونوں ہاتھ استعمال ہوتے ہوں۔ لہذا آپ کا یہ فعل عمل کثیر نہیں بلکہ عمل قلیل کے درجے میں ہے جو مفسد صلوٰۃ نہیں۔
فتاویٰ شامی (2/ 465- 464) میں ہے:
(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لاصلاحها، وفيه أقوال خمسة، أصحها (ما لا يشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها . وفي الشامية: القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية ….. قال في شرح المنية:…. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول ، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة.
فتاویٰ قاضیخان علیٰ ہامش الفتاویٰ الہندیۃ (1/ 129- 128) میں ہے:
واختلفوا في القلة والكثرة قال بعضهم كل ما يقام باليدين فهو كثير، وما يقام بيد واحدة فهو يسير ما لم يتكرر، فعلى هذا القول … ولو أغلق الباب لا تفسد صلاته، لأن ذلك يحصل بالفعلين بإدخال اليد في المغلق ثم شده المغلق … لو رفع العمامة ووضعها على الأرض أو رفعها عن الأرض ووضعها على الرأس لا تفسد.
© Copyright 2024, All Rights Reserved