- فتوی نمبر: 6-197
- تاریخ: 15 نومبر 2013
استفتاء
گذارش ہے کہ پانچ چھ سال پہلے سے میرے پاس بچیاں پڑھتی ہیں اور عورتیں بھی، پہلے میں نیچے بیٹھک میں عورتوں کو پڑھاتی تھی، استانی وغیرہ آتیں تھیں، پھر عورتیں زیادہ ہو گئیں تو کسی عورت نے چھت پر دو کمرے، باتھ روم اور وضو کی جگہ بنوا دی، پھر اوپر کلاس لگتی رہی۔ پھر میں بہت زیادہ بیمار ہو گئی تو عورتیں آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں۔ اب بہت تھوڑی سی آتیں ہیں جو کہ نیچے ہی پڑھا لیتی ہوں، اب اوپر کمرے خالی پڑے ہیں اور کمروں کے آگے شیڈ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے دروازے ٹوٹ گئے ہیں اور چھت پر پانی نیچے جانے کا جہاں راستہ تھا وہاں انہوں نے غسل خانہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے چھت پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور پانی چھت کے اندر جانا شروع ہو گیا ہے۔
اب ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ شیڈ ڈلوائیں اور دروازے نئے لگوائیں اور چھت صحیح کروائیں، اب آپ سے پوچھنا تھا کہ کیا ہم اوپر کے پورشن کو کرائے پر دے کر اس کے کرائے سے یہ کام کروا سکتے ہیں یا نہیں؟ اور وہ کرایہ گھر میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی حل بتا کر ہماری پریشانی ختم فرمائیں۔
وضاحت مزید: جس صاحب نے یہ کمرے بنوائے تھے ان سے ایک دفعہ ہم نے پوچھا تھا کہ ان کیا کیا جائے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ فروخت کر کے نادار بچیوں کی شادیوں میں خرچ کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کی بیوی سے میں نے یو پی ایس اپنے لیے استعمال کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ استعمال کر لیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ کمرے ثواب کی نیت سے بنوائے گئے ہیں اس لیے اپنے استعمال میں نہیں لاسکتی، بلکہ ثواب کے تسلسل کے لیے ان کمروں میں کسی استانی کو ملازم رکھ کر دینی تعلیم کا کام لے سکتی ہیں۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمروں کو کرائے پر دے دیا جائے جس سے ان کی مرمت کروائی جائے اور اس کے علاوہ بعد کے کرائے کو بانی کی منشاء کے مطابق نادار بچیوں کے مصرف میں لگایا جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved