• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دیوبندی حضرات کے نزدیک نبی ﷺ کا علم الغیب ہونا

استفتاء

حضرت مفتی صاحب! علماء دیوبند نبی ﷺ کے علم الغیب عطائی جزئی کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟مدلل جواب مرحمت فرمائیں نیز اس طرح کی نصوص کا جواب مرحمت فرماتے ہیں ؟

(تفسیر ابن کثیر5/161میں ہے:

اخبرنا معمر عن ابی اسحاق عن سعید بن جبیر خطب موسی علیہ السلام بنی اسرائیل…وکان رجل یعلم علم الغیب وقد علم ذلک.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فلاں علم غیب جانتا ہے یا فلاں عالم الغیب ہے اس تعبیر کے دو مطلب ہیں :

ایک تو یہ کہ فلاں کے پاس اللہ کی جانب سے عطاکردہ غیب کی(جزوی)معلومات ہیں چونکہ ہر شخص کو غیب کی کچھ نہ کچھ باتیں مثلا جنت ،جہنم وغیرہ کا علم حاصل ہے ۔اس لیے اس مطلب کے مطابق ہر شخص کو علم غیب حاصل ہے ۔دوسرا یہ کہ فلاں کو ایسی صلاحیت حاصل ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ تمام غیبی باتوں کوبلاکسی کے بتائے جانتا ہے چاہے ازخود یہ صلاحیت رکھتا ہے یا کسی کے دینے سے ہے ۔نصوص میں عموما علم غیب یا عالم الغیب کا لفظ بول کر دوسرا معنی مراد لیا جاتا ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اس کا اطلاق صرف ذات خداوند ی کے لیے درست ہے ۔غیر اللہ کے لیے درست نہیں ۔البتہ مجازا اور توسعا پہلے معنی پر بھی اطلاق کردیا جاتا ہے ۔

سوال میں ذکرکردہ روایت میں اگرچہ غیر اللہ (یعنی حضرت خضر علیہ السلام کے لیے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں تاہم یہاں پہلا معنی ہی متعین ہے کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ انہیں علم غیب (بمعنی صلاحیت یا معلومات کلیہ)حاصل نہیں تھا ۔ چنانچہ بخاری شریف میں جہاں یہ قصہ مذکور ہے وہاں خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فرمایا ہے :

یا موسیٰ: انی علی علم من علم الله علمنیه لا تعلمه انت وانت علی علم علمکه لا اعلمه.(بخاری:حدیث نمبر122)

ترجمہ :”اے موسی ! میرے پاس اللہ کا سکھایا ہوا (تکوینیات کا)ایسا علم ہے جسے  آپ نہیں جانتے ہیں اور  آپ کے پاس بھی اللہ کا سکھا یا ہوا (تشریعیات کا)ایسا علم ہے جسے میں نہیں جانتا”

اس لیے خضر علیہ السلام کے لیے ایسے الفاظ پہلے معنی پر محمول ہوں گے اور اس سے مرادوہ جزوی معلومات غیب ہوں گی جن کا تعلق تکوینیات سے ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved