• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو حدیثوں میں تطبیق

استفتاء

جب مدینہ کی طرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو طفیل بن عمرو دوسیؓ نے بھی ہجرت کی اور حضرت طفیل کی قوم میں سے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی  تو انہیں مدینہ کی آب وہوا نا موافق آئی تو وہ آدمی مریض ہوگیا تو اس نے جزع فزع کی پھر اس نے چاقو پکڑا اور اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو کاٹ دیا پس ہاتھوں سے خون بہنے لگا یہاں تک کہ وہ مر گیا تو حضرت طفیل نے خواب میں دیکھا اس کو  تو اسکی ہیئت درست تھی اور ہاتھوں کو چھپایا ہوا تھا تو حضرت طفیل نے اس سے کہا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا کیا  تو اس شخص نے کہا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا پھر  حضرت طفیل نے کہا کہ میں آپ کے ہاتھوں کو چھپا ہوا دیکھ رہا ہوں  اس شخص نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ہم اس کو درست نہیں کریں گے جس کو تو نے خراب کر دیا ہے تو حضرت طفیل نے یہ قصہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سنا یا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” یا اللہ اس کے ہاتھوں کی مغفرت فر ما”

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس حدیث میں اور مندرجہ ذیل حدیث میں کیا فرق ہے ؟

"حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہو ں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا  جسکو زخم تھا  تو وہ جزع فزع کر نے لگا تو اس نے چھری پکڑی اور اپنے ہاتھ کو کاٹ دیا تو اس کا خون نہیں رکا یہاں تک کہ وہ مر گیا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے اپنے نفس کے بارے میں جلدی کی تو میں نے اس پر جنت حرام کردی”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دوسری حدیث میں جنت حرام کردینے سے اگر ہمیشہ کے لیے حرام کر دینا مراد ہے تو دونوں میں فرق یہ ہےکہ دوسری حدیث میں جس آدمی نے خود کشی کی اس نے خود کشی کو حلال سمجھا جس سے آدمی کافر ہو جاتا ہے اور کافر پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے جبکہ پہلی حدیث میں جس نے خود کشی کی اس نے حلال سمجھ کر نہیں کی اس لیے  اس کی خودکشی کفر نہیں بنی بلکہ صرف ایک کبیرہ گناہ بنااور کبیرہ گناہ والا اللہ تعالی کی مشیت کے تحت داخل ہے اللہ تعالیٰ چاہیں تو محض اپنے فضل سے یا اس کے کسی دوسرے عمل کی برکت سے یا کسی کی دعا کی برکت سے اس کے گناہ کو معاف کردیں اور اگر عارضی طور پر حرام کرنا مراد ہے تو دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی حدیث والے کے گناہ کو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی برکت سے معاف کردیا جبکہ دوسری حدیث والے کے گناہ کو معاف نہیں کیا بلکہ گناہ کی سزاء بھگتنے تک اس پر جنت حرام کردی۔

مرقاۃ المفاتیح (رقم الحدیث:3456) میں ہے:

 عن جابر أن الطفيل بن عمرو الدوسي، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هل لك في حصن حصين ومنعة؟ – قال: حصن كان لدوس في الجاهلية – فأبى

 ذلك النبي صلى الله عليه وسلم للذي ذخر الله للأنصار، فلما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، هاجر إليه الطفيل بن عمرو وهاجر معه رجل من قومه، فاجتووا المدينة، فمرض، فجزع، فأخذ مشاقص له، فقطع بها براجمه، فشخبت يداه حتى مات، فرآه الطفيل بن عمرو في منامه، فرآه وهيئته حسنة، ‌ورآه ‌مغطيا يديه، فقال له: ما صنع بك ربك؟ فقال: غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لي أراك مغطيا يديك؟ قال: قيل لي: لن نصلح منك ما أفسدت، فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى    الله عليه وسلم: «اللهم وليديه فاغفر»”. من جملة ما ذكرنا من الأحاديث الدالة على أن الخلود غير واقع في حق من أتى بالشهادتين، وإن قتل نفسه ; لأن نبي الله صلى الله عليه وسلم دعا للجاني على نفسه بالمغفرة، ولا يجوز في حقه أن يستغفر لمن وجب عليه الخلود بعد أن نهي عنه.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (رقم الحدیث:3455) میں ہے:

(وعن ‌جندب بن عبد الله) ، أي البجلي (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” ‌كان ‌فيمن ‌كان قبلكم رجل به) : الباء للإلصاق (جرح)، بضم أوله وقد يفتح (فجزع): بكسر الزاي أي خرج عن حيز الصبر (” فأخذ سكينا، فحز ") : بالحاء المهملة وتشديد الزاي، أي:قطع بغير إبانة قاله العسقلاني. وقيل: وروي بالجيم وكلاهما بمعنى، وفي القاموس: الحز القطع، والجز بالجيم قطع الشعر والحشيش أي قطع (” بها ") : أي بتلك السكين، وهو يذكر ويؤنث على ما صرح به بعض شراح المصابيح (” يده) : أي المجروحة (فما رقأ الدم) : بفتحات أي ما سكن ولم ينقطع حتى مات (” قال الله تعالى: بادرني عبدي بنفسه ") : أي أراد مبادرتي بروحه (” فحرمت عليه الجنة ") . قال ابن الملك: محمول على المستحل أو على أنه حرمها أول مرة حتى يذيقه وبال أمره إن لم يرحمه بفضله. (متفق عليه)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved