- فتوی نمبر: 8-298
- تاریخ: 21 مارچ 2016
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
مکرم و محترم حضرت مفتی صاحب! اس مسئلہ کے بارے میں فتویٰ پر مہر لگا کر دے دیں۔
ہمارے والد صاحب (مرحوم) نے دو نکاح کیے۔ پہلی بیوی کو مکان خرید کر اس کے نام لگا دیا، اور انہیں مالکانہ بنیاد پر دے بھی دیا۔ اس بیوی سے 5 بیٹے 7 بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیوی سے 2 بیٹے 2 بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیوی کو بھی علیحدہ مکان لے کر مالکانہ بنیاد پر دیا۔
پہلے دوسری بیوی فوت ہو گئی۔ چونکہ بچے چھوٹے تھے اس لیے والد صاحب دوسری بیوی کے بچے بھی پہلی بیوی کے پاس لے آئے اور دوسری بیوی کا مکان فروخت کر کے والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں رقم اپنی مرضی سے استعمال کر لی۔ ایک عدد دکان بھی والد صاحب کے نام اب تک موجود ہے۔ پہلی بیوی کی بڑی بیٹی کا یہ کہنا ہے کہ والد صاحب نے مجھے کہا تھا کہ میری ساری پراپرٹی میں دوسری بیوی کی اولاد کو کچھ نہیں دینا ہے۔ والد صاحب بھی فوت ہو چکے ہیں۔
اب پہلی والدہ کے نام جو مکان ہے، اس میں سے آیا سارے بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے وراثت کا یا صرف دکان میں سے بنتا ہے؟ واضح فرما دیں۔
گویا والد صاحب کے نام ایک دکان ہے اور مکان بیوی کے نام ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں پہلی بیوی کی بڑی بیٹی کا یہ کہنا کہ ’’والد صاحب نے مجھے کہا تھا کہ میری ساری پراپرٹی میں سے دوسری بیوی کی اولاد کو کچھ نہیں دینا ہے‘‘ شریعت کی رُو سے اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں دکان میں سب ورثاء کا حصہ ہے۔ چنانچہ اس دکان کی موجودہ مالیت کو 184 حصوں میں تقسیم کر کے 23 حصے مرحوم کی بیوی کو، اور 7-7 حصے مرحوم کی ہر بیٹی کو، اور 14-14 حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
8×23= 184
بیوی 7 بیٹے 9 بیٹیاں
8/1 عصبہ
1×23 7×23
23 161
23 14 فی کس 7 فی کس
نوٹ: البتہ مکان میں دوسری بیوی کی اولاد کا حصہ نہیں ہے۔
في سنن ابن ماجة (318):
عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من فرّ من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة.
و في الشامية (10/ 559):
فقال (و لا يحرم ستة) من الورثة (بحال) البتة (الأب و الأم و الابن و البنت) أي الأبوان و الولدان. ……………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved