- فتوی نمبر: 17-261
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگرجنت اورجہنم کافیصلہ پہلےسےطےہےتوپھرعمل کیوں ؟
عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہرتشریف لائےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےہاتھ میں دوکتابیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکیاتم جانتےہوکہ یہ دوکتابیں کیاہیں ؟ہم نےعرض کیاجب تک آپ نہ بتائیں ہم نہیں جانتےتو آپ نےاپنےدائیں ہاتھ والی کتاب کےبارےمیں فرمایایہ کتاب رب العالمین کی طرف سےہےاس میں جنتیوں،ان کےآباءواجداداوران کےقبیلوں کےنام ہیں پھران کےآخرپرپوراحساب کردیاگیاہےلہذاان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ۔پھرآپ نےاپنےبائیں ہاتھ والی کتاب کےبارےمیں فرمایایہ کتاب رب العالمین کی طرف سےہےاس میں جہنمیوں،ان کےآباءواجداداوران کےقبیلوں کےنام ہیں پھران کےآخرپر پوراحساب کردیاگیاہےلہذااس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ۔توہم نےعرض کیااللہ کےرسول !جب فیصلہ ہوچکاہےپھرعمل کس لیےکرناہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایامیانہ روی سےدرست اعمال کرتےرہوکیونکہ جنتی سےآخری عمل جنتیوں والاکرایاجائیگا اگرچہ پہلےاس نےکیسےہی عمل کئےہوں اورجہنمی سےآخری عمل جہنمیوںوالاکرایاجائےگاخواہ اس سے پہلےاس نےکیسےہی عمل کئےہوں تمہارارب بندوں (کےمعاملے)سےفارغ ہوچکا،پس ایک گروہ جنت میں اورایک گروہ جہنم میں جائےگا
(1)کیایہ حدیث صحیح ہے؟(2)اس کامفہوم کیاہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ حدیث صحیح ہے ۔
(2)مذکورہ حدیث کا مفہوم تو واضح ہے آپ کس لحاظ سے اس کا مفہوم پوچھنا چاہ رہے ہیں ؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ ہےکہ جب سب کچھ لکھا جا چکا ہے تو پھر عمل کرنے کی ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب خود حدیث میں موجود ہے ۔
اور اگر آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں جیسے مرضی اعمال کرتا رہے لیکن اگر وہ جنتی ہوگا تو آخری عمل اس سے زبردستی (یعنی اس کے اختیار کے بغیر ) جنتیوں والا کرایا جائے گا اور اگر وہ جہنمی ہوگا تو آخری عمل اس سے زبردستی جہنمیوں والا کرایا جائےگا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری عمل میں آدمی کو اختیار نہیں تو حدیث نہ اس معنی پر دلالت کرتی ہے اورنہ حدیث سے یہ سمجھنا درست ہے بلکہ حدیث سے اچھے اعمال کرنے کی اور برے اعمال سے بچنے کی ترغیب معلوم ہو رہی ہے کیونکہ عادۃ اللہ ایسے ہی جاری ہے کہ جو زندگی بھر اخلاص سے نیک اعمال میں لگارہے اور برے اعمال سے بچتا رہے تو عموما اس کاآخری عمل بھی جنتیوں والا ہوتاہے اور اسی طرح جو زندگی بھر برے اعمال میں لگا رہے تو عموما اس کا آخری عمل بھی جہنمیوں والا ہوتاہے ،لہذاعام آدمی کو اچھے اعمال میں لگا رہنا چاہئے اور برے اعمال سے بچتے رہنا چاہئے ۔
سنن ترمذی( ج2ص482)میں ہے:
عن عبد الله بن عمرو قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم وفي يده كتابان فقال أتدرون ما هذان الكتابان ؟ فقلنا لا يا رسول الله إلا أن تخبرنا فقال للذي في يده اليمنى هذا كتاب من رب العالمين فيه أسماء أهل الجنة وأسماء أبائهم وقبائلهم ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم أبداثم قال للذي في شماله هذاكتاب من رب العالمين فيه اسماءاهل النارواسماء ابائهم قبائلهم ثم اجمل علي آخرهم فلايزادفيهم ولاينقص منهم ابدا فقال أصحابه ففيم العمل يا رسول الله إن كان أمر قد فرغ منه ؟ فقال سددوا وقاربوا فإن صاحب الجنة يختم له بعمل أهل الجنة وإن عمل أي عمل وإن صاحب النار يختم له بعمل أهل النار وإن عمل أي عمل ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم بيديه فنبذهما ثم قال فرغ ربكم من العباد فريق في الجنة وفريق في السعير
مرقاةج1(ص296)میں ہے:
وعن عبد الله بن عمرو بالواو رضي الله عنهما قال خرج رسول الله وفي يديه وفي بعض النسخ وفي يده كما في أكثر نسخ المصابيح
فيراد بها الجنس كتابان والواو للحال فقال أتدرون أي أتعلمون ما هذان الكتابان الظاهر من الإشارة أنهما حسيان وقيل تمثيل واستحضار للمعنى الدقيق الخفي في مشاهدة السامع حتى كأنه ينظر إليه رأي العين فالنبي لما كوشف له بحقيقة هذا الأمر وأطلعه الله عليه اطلاعا لم يبق معه خفاء صور الشيء الحاصل في قلبه بصورة الشيء الحاصل في يده وأشار إليه إشارة إلى المحسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقيل الظاهر أن هذا كلام صادر على طريق التصوير والتمثيل مثل الثابت في علم الله تعالى أو المثبت في اللوح بالمثبت بالكتاب الذي كان في يده ولا يستبعد اجراؤه على الحقيقة فإن الله تعالى قادر على كل شيء والنبي مستعد لإدراك المعاني الغيبية ومشاهدة الصور المصوغة لها فيه أسماء أهل الجنة
وأسماء آبائهم وقبائلهم الظاهر أن كل واحد من أهل الجنة وأهل النار يكتب أسماؤهم وأسماء آبائهم وقبائلهم سواء كانوا من أهل الجنة أو النار للتمييز التام كما يكتب في الصكوك ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقال أصحابه رضي الله عنهم ففيم العمل يا رسول الله إن كان أمر قد فرغ منه بصيغة المجهول يعني إذا كان المدار على كتابة الأزل فأي فائدة في اكتساب العمل فقال سددوا أي اجعلوا أعمالكم مستقيمة على طريق الحق وقاربوا أي اطلبوا قربة الله تعالى بطاعته بقدر ما تطيقونه والجواب من أسلوب الحكيم أي فيم أنتم من ذكر القدر والإحتجاج به وإنما خلقتم للعبادة فاعملوا وسددوا وقاربوا قاله الطيبي وقال الشيخ ابن حجر في شرح البخاري سددوا أي الزموا السداد وهو الصواب من غير إفراط وتفريط وقاربوا أي إن لم تستيطعوا الأخذ بالأكمل فاعملوا بما يقرب منه وقال الكرماني وقاربوا في العبادة ولا تباعدوا فإنكم إن باعدتم في ذلك لم تبلغوه أو معناه ساعدوا يقال قاربت فلانا إذا ساعدته أي ليساعد بعضكم بعضا في الأمور وحاصل الجواب والله أعلم بالصواب نفي الجبر والقدر وإثبات الحكم باعتدال الأمرين كتابة الأزل وسراية العمل أو لأن الأعمال أمارات وعلامات فلا بد من وجودها إذ لا يعمل الله تعالى بمجرد علمه والله أعلم ولذا قال فإن صاحب الجنة يختم له بصيغة المجهول بعمل أهل الجنة أي بعمل مشعر بإيمانه ومشير بإيقانه وإن عمل أي ولو عمل قبل ذلك أي عمل من أعمال أهل النار وإن صاحب النار يختم له بعمل أهل النار أعم من الكفر والمعاصي وإن عمل أي عمل أي قبل ذلك من أعمال أهل الجنة
© Copyright 2024, All Rights Reserved