• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک حدیث کی تحقیق

استفتاء

ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریمﷺ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام   کچھ پریشان ہیں آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپکو غمزدہ دیکھ رہا ہوں جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں نبی کریمﷺ  نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ جبرائیل  علیہ السلام نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں ۔ ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا۔ اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے۔ اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے ۔ چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں گے یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی  امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے ۔

جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوئےاور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب  مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریمﷺ  پر یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں۔ گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکرؓ سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پر آئے  دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوئے سیدنا عمر ؓکے پاس آئے  اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں ہوسکتا ہے آپ کو  سلام کا جواب مل جائے آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا  حضرت عمرؓ نے سلمان فارسیؓ  کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شخصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نہیں جانا چاہیے۔

بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ کو  اندر بھیجنا  چاہیے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا  کو سب احوال بتا دئیے آپ حجرے کے دروازے پر آئیں اور کہا:

” ابا جان اسلام وعلیکم”

بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنی امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معاف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر ان کو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى’’ اے میرے محبوب غم نہ کر میں آپ  کو اتنا عطا کروں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘ آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگو اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کرے گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے یہ  لکھتے ہوئے  آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے ان کو کیا دیا؟

اس کا حوالہ چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  حدیث اس تفصیل کے ساتھ تو کہیں  نہیں ملی البتہ اس کی کچھ باتیں الگ الگ احادیث  میں مل جاتی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جہنم کے سات درجے ہیں جن میں پہلے درجہ میں آپ علیہ السلام کی امت کے گناہ گار اہلِ ایمان کو ڈالا جائے گا اور پھرایمان کی برکت سے واپس نکال لیا جائے گا اسی طرح ایک حدیث میں یہ مضمون بھی ملتا ہے کہ  آنحضرتﷺ اپنی امت کے بارے میں غمگین تھے اسی اثناء میں جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ پاک آپ کو آپ کی امت  کے بارے میں خوش کردیں گے  اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میرا ایک  بھی امتی جہنم میں ہو۔

قرطبی(22/95) میں ہے:

وفي صحيح مسلم عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه وسلم تلا قول الله تعالى في إبراهيم: فمن تبعني فإنه مني ومن عصاني فإنك غفور رحيم «1» [إبراهيم: 36] وقول عيسى: إن تعذبهم فإنهم عبادك «2» [المائدة: 118]، ‌فرفع ‌يديه وقال: (اللهم أمتي أمتي) وبكى. فقال الله تعالى لجبريل: (اذهب إلى محمد، وربك أعلم، فسله ما يبكيك) فأتى جبريل النبي صلى الله عليه وسلم، فسأل فأخبره. فقال الله تعالى لجبريل: [اذهب إلى محمد، فقل له: إن الله يقول لك: إنا سنرضيك في أمتك ولا نسوءك

أيضا:(22/96)

وفي الحديث: لما نزلت هذه الآية قال النبي صلى الله عليه وسلم: [إذا والله لا أرضى وواحد من أمتي في النار

أيضا:(10/30 تحت قوله تعالى لها سبعة ابواب لكل باب منهم جزء مقسوم)

قال الضحاك: في الدرك الأعلى المحمديون، وفي الثاني النصارى، وفي الثالث اليهود، وفي الرابع الصابئون، وفي ‌الخامس ‌المجوس، وفي السادس مشركو العرب، وفي السابع المنافقون وآل فرعون ومن كفر من أهل المائدة

الدر المنثور(5/82) میں ہے:

وأخرج ابن أبي حاتم عن الضحاك رضي الله عنه في قوله: {لها سبعة أبواب لكل باب منهم جزء مقسوم} قال: باب لليهود وباب للنصارى وباب للصائبين وباب ‌للمجوس وباب للذين أشركوا – وهم كفار العرب – وباب للمنافقين وباب لأهل التوحيد فأهل التوحيد يرجى لهم ولا يرجى للآخرين أبدا

تفسیر ابن کثیر (4/461) میں ہے:

وقال جويبر عن الضحاك لها سبعة أبواب لكل باب منهم جزء مقسوم قال: باب لليهود، وباب للنصارى، وباب للصابئين، وباب للمجوس، وباب للذين أشركوا وهم كفار العرب، وباب للمنافقين، وباب لأهل التوحيد، فأهل التوحيد يرجى لهم ولا يرجى لأولئك أبدا»

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved