- فتوی نمبر: 16-92
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > متفرقات حدیث
استفتاء
سیدناعلیؓ اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے کاٹتے تھے۔اس روایت کو امام ابی شیبہ ،امام محمدبن عبدالبر،امام زید سمیت عالم عرب سینکڑوں محدثین نے کتابوں کی زینت بنایا جب کہ پاکستان میں بھی بہت سارے محدثین مفتی عبدالقیوم ہزاروی،مفتی یوسف وغیرہ نے نقل کیا۔
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول ﷺ جزواالشوارب وارخوااللحي خالفوا المجوس انهم يوفرون سبالهم ويحلقون لحاهم فخالفوهم.
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:مونچھیں کم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو وہ مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھیاں منڈاتے ہیں ،پس تم ان کی مخالفت کرو۔(مسلم1/22۔بخاری2/875)
حدیث کی تشریح:
آقا کریمﷺکے اس فرمان میں داڑھی رکھنے کاحکم تو ہے مگر داڑھی رکھنے کی کسی بھی مقدار کا حکم نہیں ،نبی کریم نے فقط اتنی داڑھی رکھنے کاحکم دیا جس سے داڑھی منڈوانے والے کی مخالفت ہو سکے یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام ؓاپنی اپنی پسند کے مطابق داڑھی رکھتے تھے۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ مسلک حنفی یوں بیان کرتے ہیں:
عن ابي حنيفة رحمه الله عن حماد عن ابراهيم انه قال لابأس ان يأخذالرجل من لحيته مالم يتشتبه باهل الشرک امام ابويوسف يعقوب بن ابراهيم متوفي 150،کتاب الاثار234
امام اعظم ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ مشرکین (داڑھی منڈوانے والے)کی مخالفت ہو۔
25480حدثنا وکيع عن ابي هلال قال:سالت الحسن وابن سيرين فقالا: لابأس به ان تأخذ من طول لحيتک (کتاب المصنف ابن ابي شيبة )
ابو الھلال ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن سرین ؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھنے میں کوئی حرج نہیں
حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں:
عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال من سعادة الرجل خفة لحيته.
ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا داڑھی کا چھوٹا ہونا مرد کی سعادت میں سے ہے۔(رواہ الطبری،باب البأس)
شرح المشکوۃ 8/298باب الرجل فصل ثانی:الکامل،7/128
تشریح …ثابت ہوا کہ داڑھی کو چھوٹا رکھناسعادت والی بات ہے۔
عن سماک رضي الله عنه کان علي رضي الله ياخذ من لحيته ممايلي وجهه
حضرت علی اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے داڑھی کاٹتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبة،ص:5/225۔رقم الحدیث :25480)
اہم علمی نکتہ :
امام اعظم ابوحنیفہؒ سے لے کرامام ابن عابدین شامی تک اہلسنت والجماعت کی 14سوسالہ تاریخ میں کسی محدث نے بھی ایک مشت داڑھی کو واجب نہیں کہا مگر برصغیر پاک وہند میں گیارہویں صدی عیسوی میں برصغیر کے ایک متاخر عالم شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے محض اپنی رائے سے ایک مشت داڑھی کو واجب کہنے کی بدعت کاآغاز کیا ….انڈیا وپاکستان میں بعد کے محدثین نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی پیروی کی۔
یادرہے کہ شیخ عبدالحق محد ث دہلوی نے داڑھی کے وجوب پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔یاد رکھیں کہ اصول فقہ کے 11مراتب ہیں۔ہر بڑے فتوی کے شروع کے صفحات میں علم فقہ کے یہ 11مراتب درج ہوتے ہیں ۔اصول فقہ کا ایک عام سا طالب بھی اگر داڑھی کی مقدار کو ان 11مراتب پر پرکھے تو آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موکدہ ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺنے داڑھی رکھنے کی کوئی مقدار مقرر نہیں فرمائی۔
امام ابن عابدین شامی واجب کی تعریف یوں لکھتے ہیں:
واجب اسے کہتے ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہو یعنی کہ جس کام کا نبی کریم ﷺحکم دیں اور پھر اس کے نہ کرنے پر وعید فرمائیں اسے واجب کہتے ہیں(شامی:1/53)
جب کہ دنیا جانتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تو داڑھی رکھنے کی کوئی بھی مقدار مقرر نہیں فرمائی۔ایک مشت داڑھی رکھنے کا تو حکم ہی نہیں دیا ،وعید سنانا تو بہت دور کی بات ہے۔
ثابت ہوا کہ داڑھی کی مقدار سنت غیر موکدہ ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔میں نے یہ پوسٹ فقط اس لیے اپلوڈ کی کیوں کہ دیکھاگیا ہے کہ مولوی لوگ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے صرف قول کا سہارا لے کر چھوٹی داڑھی رکھنے والوں کی عزت کو مجروح کرنے سے باز نہیں آتے۔انہیں چاہیےکہ بغیر کسی شرعی دلیل کے لوگوں کی عزت کو مجروح کرنے سے باز آجائیں۔ہمارے پاس دلائل کا ایک دفتر موجود ہے مگر تحریر زیادہ لمبی ہونے کےخوف سے انہی دلائل پر اکتفا کرتے ہیں۔تفصیلی جواب مطلوب ہے۔جزاکم اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔احادیث میں صرف داڑھی رکھنے کاحکم نہیں دیا گیا(2) بلکہ داڑھی بڑھانے کا داڑھی کو(کاٹنے سے) معاف رکھنے کاحکم دیاگیا ہےاس حکم کا تقاضا یہ تھا کہ داڑھی کو بالکل نہ کٹوایا جائے (3)لیکن ترمذی شریف میں روایت ہے کہ آپ ﷺاپنی داڑھی کے طول (لمبائی)اورعرض(چوڑائی)سے داڑھی کو کاٹتے تھے اور اس کاٹنے کی تعیین حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے عمل سے ہوتی ہے کہ وہ حج وعمرہ کے موقعہ پراحرام سے نکلتےوقت ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹتےتھے جس سے معلوم ہوا کہ داڑھی بڑھانے کاحکم ایک مشت تک ہے اس سے زائد نہیں۔
منسلکہ حوالوں میں کوئی حوالہ ایسا نہیں جس میں اس کی صراحت ہو کہ (4)آپ ﷺ ،صحابہؓ،تابعین ،تبع تابعین ،ائمہ اربعہ ،محدثین اوراکابراہل علم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہو جو اپنی داڑھی کو ایک مشت سے کم کرتا ہو۔
1۔اختلاف امت اور صراط مستقیم میں ہے :
اعفاءلحیہ کے حکم کی یہ تعبیر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ داڑھی رکھی جائے اس حکم کو بہت ہلکاکر دیتی ہے حدیث میں اس کے لیے جو الفاظ آئے ہیں ان کا کوئی لفظ اس تعبیر کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ تمام الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی ہدایت نعت نکلتی ہے کہ داڑھی بڑھائی جائے لمبی کی جائے………ابن دریدکی جمہرةاللغة میں ہے:
عفاشعره اذا کثر عفي النبت والشعروغيره کثروطال وفي الحديث انه صلي الله عليه وسلم امرباعفاءاللحي وهو ان يوفرشعرها ويکثر ولايقص کالشوارب العافي الطويل الشعرويقال للشعراذاطال ووفي عفاء
قاموس میں ہے:
عفي شعرالبعير کثروطال فغطي دبره اعفي اللحيةوفرها
ان تصریحات سے بھی معلوم ہوا کہ عفی اوراعفی کے صغیے جب بالوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو انکا کثیر ہونا وافر وطویل ہونا ان صیغوں کی لغوی حقیقت میں داخل ہے، اس لیے اعفوااللحی کے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سمجھنا کہ اس میں صرف داڑھی رکھ لینے کی ہدایت ہے، لغوی معنی کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے۔(249)
2.دوسری جگہ ہے:
داڑھی بڑھانے کے حکم میں جو الفاظ احادیث میں مروی ہیں ان سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ظاہر ہوتا ہے ۔حدیث میں پانچ الفاظ ملتے ہیں(۱)اعفاء(۲)ایفاء(۳)ارجاء(۴)ارخاء(۵)توفیر۔ان سب الفاظ کے بارے میں علامہ نوویؒ لکھتےومعناهاکلها ترکهاعلي حالها(اور ان سب الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے )یہ تمام الفاظ اور ان کی تشریحات صاف بتا رہی ہیں کہ حدیث کا منشاء محض داڑھی رکھ لینا نہیں ہے بلکہ اس کو بڑھانا اور لمبا کرنا ہے ۔(234)
3.ایک اور جگہ ہے :
احادیث میں داڑھی کے بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے ترمذی کتاب الادب (2/100)کی ایک روایت میں جو سند کے اعتبار سے کمزور ہے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے اس کی وضاحت صحیح بخاری کتاب اللباس (2/875)کی روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما حج اور عمرے سے فارغ ہونے کے موقعہ پر احرام کھولتےتو داڑھی مٹھی میں لے کرزائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی مضمون کی روایت منقول ہے( نصب الرایہ:2/458) اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ داڑھی کی شرعی مقدار کم ازکم ایک مشت ہے۔(220)
4.ایک اور جگہ ہے:
سلف میں سے کسی کے خیال میں بھی شاید یہ بات نہ ہوگی کہ داڑھی کی مقدار ایک مشت سے بھی کم جائز قرار پا سکتی ہے، ان میں سے کسی کی صراحت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔(242)
© Copyright 2024, All Rights Reserved