• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک واقعہ کی تحقیق

استفتاء

ہماری تاریخ میں بہت بڑا خوبصورت نام عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ۔آپ نے ساری زندگی نکاح نہیں کیا ،جوانی گزر گئی بڑھاپا آیا، ایک دن بیٹھے   حدیث مبارک پڑھ رہے تھے تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پڑھاجس کا مفہوم یہ تھا کہ : "جنت میں کوئی اکیلا نہیں ہوگا جو نکاح کی عمر میں نہیں پہنچا یا پہنچا بھی تو کسی وجہ سے نہیں ہوا اور وہ مسلمان ہی مرا تو اللہ مسلمان مردوں اور عورتوں کا جنت میں آپس میں نکاح کر دے گا ” جب یہ حدیث پڑھی تو دل میں خیال آیا کہ یہاں تو نکاح نہیں کیا تو جنت میں ہونا ہی ہونا ہے تو جنت میں میری بیوی کون ہوگی ؟     دعا کی کہ یا اللہ مجھے دکھا تو صحیح جنت میں میری بیوی کون ہوگی ؟ پہلی رات دعا قبول نہیں ہوئی ،دوسری رات بھی دعا قبول نہیں ہوئی ،تیسری رات دعا قبول ہو گئی۔ خواب میں کیا دیکھتے ہیں کالے رنگ کی عورت ہے حضرت بلال حبشی کے دیس  حبشہ کی  رہنے والی، وہ  کہتی ہے کہ: ” میں  میمونہ ولید ہوں اور میں بصرہ میں رہتی ہوں”۔ پتہ مل گیا آنکھ کھلی  تو حضرت کی تہجد کا وقت تھا، نوافل پڑھے، نماز فجر ادا کی اور سواری لے کر حضرت عبداللہ بن زید بصرہ گئے۔ وہاں لوگوں نے بڑا استقبال کیا حضرت کا نام ہی بہت بڑا تھا ،بٹھا کر پوچھا :حضرت بتائے بغیر کیسے آنا ہوا ؟خیر تو ہے ،آپ نے پوچھا یار یہ تو بتاؤ کہ یہاں کوئی میمونہ ولید رہتی ہے۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا : حضرت آپ اتنی دور سے چل کر میمونہ ولید سے ملنے آئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں اس سے کوئی مل نہیں سکتا ؟کہنے لگے حضور وہ تو دیوانی ہے ،لوگ اسے پتھر مارتے ہیں ،حضور نے پوچھا کیوں مارتے ہیں ؟حضور کام ہی ایسے کرتی ہے، کوئی رو رہا ہو تو اسے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے اور کوئی ہنس رہا ہو تو رونا شروع کر دیتی ہے اور وہ اجرت پر پیسے لے کر لوگوں کی بکریاں چراتی  ہے۔آج بھی وہ ہماری بکریاں لے کر جنگل میں گئی ہے آپ آرام فرمائیں عصر کے بعد آ جائے گی آپ مل لیجئے گا ۔حضرت نے فرمایا : عصر کس نے دیکھی ،کہا وہ کس سمت گئی ہے؟  لوگوں نے کہا حضور جنگل نہ جائیں بہت خوفناک جنگل ہے، آپ نے فرمایا بتاؤ کہ کس طرف گئی ہے لوگوں نے بتادیا۔

آپ فرماتے ہیں کہ میں نکل گیا ، جب میں جنگل گیا تو  واقعی خوفناک جنگل تھا ،جنگلی جانوروں کی بھرمار تھی ،قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیز کھڑی ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ قربان جاؤں  اس عورت کی مردانگی پر، وہ اس جنگل میں کس طرح بکریاں چرا رہی ہے ۔ شیروں نے اس کی بکریوں کو ابھی تک کھایا نہیں ،اتنے درندے ہیں سارے مل کر حملہ کر دیں تو یہ اکیلی عورت کیا کرے؟  کس کس کو روکے گی؟ خیر آپ فرماتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں لوگوں نے مجھے بتائی تھی میں وہاں پہنچ گیا جب میں وہاں پہنچا تو منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا ،دو حیران کر دینے والے منظر تھے ۔پہلا میمونہ ولید بکریاں نہیں چرا رہی تھی بلکہ اس جنگل میں جائے نماز بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی ، بکریاں چرانا تو بہانہ تھا   کنارہ کشی کا، لوگ یہی سمجھتے تھے میمونہ سارا دن بکریاں چراتی ہے لیکن میمونہ بکریاں نہیں چرا رہی تھی۔  دوسرا کیا دیکھا کہ میمونہ تو نماز پڑھ رہی ہے پھر بکریاں کون چرا رہا ہے ؟ بکریاں تو ایک جگہ نہیں رکتیں  کبھی ادھر جاتی ہیں  کبھی  ادھر، آپ فرماتے ہیں کہ میمونہ نماز پڑھ رہی تھی اور شیر بکریاں چرا رہے ہیں۔ بکریاں چر رہی ہیں شیر ان کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اگر کوئی بکری بھاگتی ہے( کیونکہ  اس کی فطرت  تو شرارت کرنا  ہے) تو شیر  اسے پکڑ کر واپس لے آتا ہے لیکن کہتا کچھ نہیں، آپ فرماتے ہیں میں حیران و پریشان کھڑا تھا کہ یہ کیسے ہو گیا یہ فطرت کیسے بدل گئی؟

لوگ کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی یہ شیروں اور بکریوں میں یاری کیسے ہو گئی؟  آپ فرماتے ہیں میں دنگ حیران و پریشان کھڑا ہوں مجھے نہیں پتہ کہ کب میمونہ ولید نے نماز ختم کر دی اور مجھے مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ : ‘اے عبداللہ ملنے کا وعدہ تو جنت میں تھا آپ  یہاں آ گئے ہیں ”  آپ فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا اس سے پہلے تو   ملاقات بھی نہیں ہوئی تو حضرت میمونہ ولید کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا ؟ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میمونہ ولید سے سوال کیا اس سے پہلے ہم ملے نہیں، ملاقات نہیں ہوئی ہماری تو میرا نام کیسے پتہ چلا آپ کو،   حضرت میمونہ ولید فرماتی ہیں عبداللہ!  جس  اللہ نے تجھے میرے بارے میں بتایا ہے اسی اللہ نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھا کہ یہ فطرت کیسے بدلی؟  میں نے حضرت میمونہ ولید سے پوچھا:  آپ یہ تو بتاؤ یہ شیروں نے بکریوں کے ساتھ  کیسے صلح  کر لی؟

یہ تو غذا ہے ان کی اگر شیر بکریوں کے ساتھ یاری لگائے گا تو کھائے گا کیا؟ یہ معاملہ کیسے ہو گیا ؟ تو حضرت میمونہ ولید فرماتی ہیں جب سے میں نے رب سے صلح کر لی ہے اس دن سے ان شیروں نے میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔

حضرت اس واقعہ کی تحقیق درکار ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ واقعہ امام یافعیؒ کی کتاب  روض الصالحین   اور مولانا زکریاؒ کی کتاب   سیرت مشائخ  چشت میں مذکور ہے    ۔تاہم   یہ  واقعہ حضرت عبداللہ بن زید کا  نہیں  بلکہ حضرت عبدالواحد بن زید ؒ کا ہے جو حضرت حسن بصریؒ  کے اجل خلفاء میں سے  ہیں۔ اصل واقعہ یوں ہے:

حضرت عبد الواحد بن زید فرماتے ہیں کہ میں تین رات  مسلسل یہ دعا کرتا رہا کہ یا اللہ  جنت میں جو میرا رفیق ہو اس کی مجھے دنیا میں ملاقات کرادے۔ تین دن کے بعد مجھے بتایا گیا کہ تیری ساتھی میمونہ سوداء ہیں (جو ایک حبشی عورت تھیں اتنی کالی کہ ان کا لقب  ہی سودا ء ہو گیا تھا) میں نے پوچھا کہ وہ کہاں ملیں گی ؟ مجھے بتا یا گیا کہ کوفہ کے فلاں قبیلہ میں ہیں۔ میں ان سے ملنے چل دیا۔ کو فہ پہنچ کر میں نے ان کا حال دریافت کیا مجھے بتایا گیا کہ وہ بکریاں چرایا کرتی ہیں۔ فلاں جنگل میں ہیں ۔ میں اس جنگل میں پہنچا وہ ایک گدڑی اوڑھے  نماز پڑھ رہی تھیں۔ اُن کے قریب ہی بکریاں اور بھیڑیے اکٹھے چر  رہے تھے۔ جب میں پہنچا ۔ تو انھوں نے اپنی نماز کو مختصر کر کے سلام پھیرا اور سلام پھیرنے کے بعد کہنے لگیں عبدالواحد!   آج نہیں، آج تم  چلے جاؤ، ملاقات کا وعدہ کل کو( قیامت میں ) ہے۔ میں نے اُن سے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ میں عبدالواحد ہوں ؟ کہنے لگیں تمہیں معلوم نہیں کہ روحیں ( ازل میں) سب ایک لشکر کی طرح مجتمع تھیں۔ جن کا وہاں آپس میں تعارف ہوگیا ان کا یہاں بھی تعارف ہو جاتا ہے ۔(یہ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے جو مشہور حدیث ہے) میں نے ان سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کر دیجئے، کہنے لگیں بڑے تعجب کی بات ہے جو خود   واعظ  ہو  دوسرے سے نصیحت کی درخواست کرے ( تم تو خود ہی بڑے واعظ ہو ) اس کے بعد اُنھوں نے کہا مجھے بزرگوں سے  یہ بات پہنچی ہے کہ جس بندہ کو حق تعالی شانہ  دنیا کی کوئی نعمت ( مال ودولت وغیرہ ) عطا فرمائے اور وہ شخص پھر بھی اس کی طلب میں لگار ہے تو حق تعالی شانہ  اس شخص سے اپنے ساتھ تنہائی کی محبت زائل کردیتے ہیں اور اپنے سے بعد اس پر مسلط کر دیتے ہیں اور اپنے ساتھ انس کی بجائے  وحشت اس پر سوار کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد انھوں نے پانچ شعر پڑھے ۔جن کا ترجمہ یہ ہے کہ: "اے واعظ!  تو لوگوں کو وعظ و  نصیحت اور تنبیہ کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو لوگوں کو گناہ سے روکتا ہے حالانکہ تو خود ان گناہوں کا بیمار ہے ان میں مبتلا ہے۔ اگر تو دوسروں کو نصیحت سے پہلے اپنی اصلاح کرلیتا اپنے گنا ہوں سے توبہ کرلیتا ،تو تیرے کہنے کا ان کے دلوں پر اثر پڑتا لیکن جب توایسی حالت میں دوسروں کو منع کرتا ہے کہ تو خود ان میں مبتلا ہے تو ،تو اپنے اس منع کرنے میں خود شک میں ہے ( اور جن کو خود کسی بات میں تردد ہو وہ دوسرے کو زور سے کیا کہہ سکتا ہے)میں نے پوچھا کہ تمہاری بکریاں بھیڑیوں کے ساتھ ہی چر  رہی ہیں بھیڑیے ان کو کچھ کہتے نہیں؟ کہنے لگی کہ جا  اپنا کام  کر ، میں نے اپنے سردار سے صلح کرلی اس نے میری بکریوں اور بھیڑیوں میں صلح کر دی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved