• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فضائل اعمال کتاب کا رتبہ اور حیثیت، احادیث کا انکار، فضائل اعمال کے روایات سے اختلاف، شیعہ حضرات کے فتاویٰ کی حیثیت

استفتاء

"فضائل اعمال " جس کے مصنف زکریا صاحب ہیں۔ کیا فضائل اعمال  کتاب پر ایمان لانا اسی طرح ہے جیسا کہ قرآن شریف پر ایمان لانا ؟ کیا اس کتاب کے کسی واقعہ یا روایت سے اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ یا کسی طالب علم کے لیے اس سے اختلاف کرنا ممنوع ہے؟ اور مذہب اسلام میں اس کتاب کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا یہ کتاب تمام کی تمام درست ہے؟ مستند ہے ؟ یا غلطی ، کمی بیشی کا امکان ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے۔

2۔ اہل سنت کے نزدیک شیعہ علماء کے فتاویٰ کی  کیا حیثیت ہے ؟ کیا شیعہ ( روافض ) کو مسلم جان کر ان سے فتویٰ لیا جا سکتا ہے؟ کیا شیعہ رافضی مسلمان ہیں؟

3۔ کیا ” فضائل اعمال ” کے واقعات ، حکایات ، روایات سے اختلاف کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اختلاف کرنے والا دائرہ اسلام میں رہتا ہے یا خارج از اسلام ہو جاتا ہے؟

4۔ جو یہ کہتا ہے ” احادیث چاہے کیسی ہی اعلیٰ ہوں ان کے انکار سے انسان کافر نہیں ہوتا” حجت قطعی صرف قرآن مجید ہے جس کے ایک حرف کے انکار سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے” کیا ایسا شخص مسلم ہے؟ یا دائرہ اسلام سے خارج ہے؟

وضاحت مطلو ب ہے: ان سوالات کی کیا ضرورت پیش آئی ہے۔ پس منظر معلوم ہوگا تو سوال و جواب کو حدود میں رکھنا ممکن ہوگا ورنہ نہیں۔ نیز اپنے بارے میں بھی کچھ بتائیں کہ آپ کیا کرتے ہیں اور آپ کی دلچسپیاں کیا ہیں؟

جواب: کچھ عرصہ قبل میں نے ایک سوال نامہ آپ کی خدمت میں بھیجا تھا اور رہنمائی کی درخواست کی تھی۔ تو مجھے جامعہ سے فون آیا کہ میں تحریراً سوالات کا پس منظر اور وجہ اور اپنا کام کاج بتاؤں۔

پس منظر یہ کہ ہم چند دوست ہیں ان میں کچھ ٹیچرز ہیں کچھ مجھ جیسے طالب علم اور کچھ بزنس کرتے ہیں۔ ہم دوست کبھی کبھی علمی موضوعات پر ڈسکس کرتے رہتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ فرقہ واریت سے ہٹ کر ہم تمام دوست مختلف مکاتب فکر ، مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں جس کی سمجھے نہ آئے ہم علماء سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے کسی ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ انفرادی طور پر آپ سے سوالات کیے۔ ( کیونکہ آپ نے پوچھا تھا کہ کیا ہم کسی ادارے سے ری لیٹڈ ہیں؟ )۔ میں گارمنٹس کا بزنس کرتا ہوں۔ میری شاپ ہے۔ اور میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے اسلامک سٹڈیز کیا ہے۔ ( یہ میرا فیلڈ ہے ) بزنس فیلڈ ہے۔ مختلف سکالرز اور علماء کو سٹڈی کرنا میرا شوق ہے۔ اور رہنمائی حاصل کرنا بھی میرا شوق ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ میرے سوالات کے جوابات عنایت فرما کر میری راہنمائی کی جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کتاب” فضائل اعمال” سے غرض لوگوں کو دینی اعمال کی ترغیب دینا اور ان کے ترک  پر وعید بتانا ہے۔ فضائل کی حدیثوں کے بارے میں علمائے دین، محدثین اور فقہاء کا ایک ضابطہ ہے۔ فضائل اعمال کے مصنف فن حدیث کے بڑے اور مسلمہ عالم ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے  "اس کتاب میں جو حدیثیں ذکر کی ہیں وہ اس ضابطے کے مطابق ہیں”۔ ہمارے پاس ان کے بارے میں بدگمانی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ رہے وہ واقعات اور قصے جو اس کتاب میں نقل کیے گئے ہیں وہ بھی اسی ضابطے کے تحت ہیں۔ پھر بھی اگر اس میں مذکور کسی حدیث یا واقعہ کے بارے میں کوئی دوسرا ماہر عالم اپنی دیانتدارانہ  تحقیق سے مصنف سے اختلاف کرے تو ایسا کرسکتا ہے۔لیکن اگر کوئی عام آدمی جو باقاعدہ عالم نہ ہو محض اپنے مطالعے سے یہ سمجھے کہ وہ بھی اختلاف کا حق رکھتا ہے نری جہالت و بے عقلی ہے۔

رہا کتاب ” فضائل اعمال " پر کفر و اسلام کا حکم لگانا تو ایسا دعویٰ نہ مصنف نے کیا ہے اور نہ ہی کسی اور ماہر عالم نے کیا ہے۔

حدیث کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ” خواہ وہ کیسی ہی اعلیٰ ہوں ان کے انکار سے آدمی کافر نہیں ہوتا” اس کا جواب  یہ ہے کہ یہ فکر تو خود ہی کفر ہے۔ آخر

.i قران پاک میں صلوٰة فجر، صلاة عشاء اور صلاة جمعہ کا ذکر ہے۔ نبی ﷺ سے لے کر اب تک امت اس کا ایک خاص مطلب اور خاص طریقہ سمجھتی آئی جو حدیث سے ثابت ہے۔ اب ہمارے اس دور میں اگر کوئی شخص اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ میں حدیث کو نہیں مانتا اور میں صلوٰة کا مطلب یہ لیتا ہوں تو یہ قران پاک کی تحریف معنوی کا مرتکب ہوا۔ کیا یہ کفر نہیں ہے؟  اور یہ کہنے لگے کہ میں جنت و جہنم کا اور فرشتوں کا اور آدم کا وہ مطلب لینے لگے  جو رسول اللہ ﷺ  اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے ہوئے مطلب سے مختلف ہو حالانکہ یہ وہ حقائق ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔

.ii قران کا تقاضا  ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی تعلیم موجود ہو کیونکہ دین سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو بات بھی بتائی وہ بطور حضرت محمد ﷺ کے نہیں بلکہ بطور رسول کے بتائی اور آپ جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے رسول ہیں اسی طرح ہمارے لیے بھی رسول ہیں۔ قران پاک میں "ما کان لرسول أن یکون له  أسری حتی یثخن فی الاض”۔

تفصيل كى  ہماری کتاب” اصول دین” اور "قرآن کو قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سمجھئے” دیکھیے۔

2۔ آپ اسلامک سٹڈیز میں ایم۔ اے کیا ہوا ہے۔ آپ کو شیعہ حضرات کے مسلمہ مذہبی عقائد کا تو پتہ ہوگا۔ اگر علم ہونے کے باوجود کچھ اشکال ہوتو ان کے بارے میں دلائل کے ساتھ اپنا عقیدہ لکھ کر وہ اشکال ذکر کیجئے۔

تنبیہ: ویسے ہی بیٹھ کر علمی گپ شپ لگانا اور دین کو اپنی طبع آزمائی کا نشانہ بنانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر آپ اہل سنت و الجماعت میں سے ہیں تو گپ شپ میں وقت گذارنے سے بہتر ہے کہ آپ اعمال میں وقت لگائے۔ ایسی گپ شپ سے کوئی معتد بہ فائدہ نہیں ہوتا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved