• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فضائل اعمال کے حدیث غیرشہیدرتبے میں شہید سےبڑھ سکتا ہے پر چند اشکالات

استفتاء

بندہ ناچیز فضائل اعمال نامی کتاب کا مطالعہ کررہا  ہوں۔ یہ کتاب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔ اس کتاب کے ص 305 کے باب اول میں لکھا گیا ہے۔ (305 تا 307 ساتھ  لف ہے )

دو آدمی ایک ہی وقت میں مسلمان ہوتے ہیں۔ ایک شخص اسی وقت شہید ہوجاتا ہے۔ یہ صاحب بہت  مستعد اور ہمت والے بیان کیے گئے ہیں۔جبکہ دوسرے صاحب کا انتقال ایک برس بعد ہوا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ طبعی موت مرنے والا شہید ہونےوالے سے پہلے  جنت میں داخل ہوا۔ کتاب کے مطابق اس حدیث کےراوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتائے گئے ہیں۔

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو بڑا تعجب ہوا اور حضرت محمد ﷺ سے عرض کیا گیا۔ شہید کا درجہ تو اونچا ہے۔

کتاب کے مصنف کے مطابق آپ سرکار ﷺ فرماتےہیں۔ بعد میں فوت ہونےوالے نےایک سال زیادہ نمازیں پڑھیں۔ ایک ماہ زیادہ روزے رکھے۔ زیادہ نمازیں اور  روزوں کی وجہ سے جنت میں پہلے داخل ہوئے۔

جبکہ تمام  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پختہ یقین تھا۔ اورو ہ تمام حضرت محمد ﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔ اور تمام علم بھی آپ ﷺ سے ہی ملا تھا۔ کہ شہید جنت میں پہلے داخل ہونگے۔ مگر زیر مطالعہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، عبادات والے شہید سے افضل ہیں۔

اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے ،جہاد میں جان دینے کی بجائے اپنی جان بچانا بہتر عمل ہے۔ تاکہ زیادہ  نمازیں اور روزےرکھ کر اونچا درجہ حاصل کیا جائے۔ دنیا میں بھی سب کچھ حاصل کرے اور جنت میں بھی  پہلے جائے۔ اس حدیث کے مطابق جان دینے والا پیچھے رہ جاتا ہے۔ کیا یہ مان لیا جاوئے؟ اگر کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا وہ حضرات جو  مختلف غزوات میں شہید ہوئے۔ زیادہ نمازیں اور روزے رکھنے والے ہوں بلند درجہ رکھتے ہیں۔ جو  کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں۔

مزید براں یہ حدیث قرآن مجید کے پارہ 5 رکوع 6 کی آخری آیت سے بھی ٹکراتی ہے۔ترجمہ” اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم مانے، تو اسے ان کا ساتھ ملے گا، جن پر اللہ نے فضل کیا، یعنی انبیاء اور صدیق اور شہیدا اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کافی ہے جاننے والا”۔ آپ سے عرض ہے کہ آپ فتویٰ صادر فرمائیں۔ یہ بھی بتائیں  دیں، کہ یہ کتاب مسجد میں رکھنے  کے قابل ہیں؟ اور یہ حدیث قابل اعتماد ہے۔ میں آپ کا  ممنون ہوں گا۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ صحابی  ہیں جن کو حضرت محمد ﷺ نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھا۔ آخری عمر تک شہادت کی تمنا لیے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگر شہادت عبادت سے اول نہ ہوتی تو وہ اس کی تمنا نہ رکھتے، اس سے بڑا ثبوت اس حدیث کے  رد کیے جانے کا کیا ہوسکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فضائل اعمال کے مؤلف نے یہ حدیث بغیر تحقیق کے نہیں لکھی بلکہ مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، موطا امام مالک، اور مستدرک حاکم وغیرہ جیسی حدیث کی مستند کتابوں سے نقل کی ہے۔ اور یہ حدیث ان کتابوں میں اسی طرح موجود بھی ہے۔ اسی طرح حدیث کے فن میں بصیرت رکھنے والے حضرات نے اسے صحیح اور قابل اعتماد حدیث قرار دیا ہے۔

چنانچہ اس حدیث پر سند کے حوالے سے تو کوئی اشکال اور اعتراض نہیں ہوسکتا ہے۔باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ ایک غیر شہید رتبے میں کسی شہید سے کیسے بڑھ سکتا ہے؟؟ یہ اشکال پہلے بھی سامنے آیا ہے اوراس کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔

امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ(م۳۲۱ھ) جن کا حدیث کی روایت اور تطبیق و تشریح کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے، فرماتے ہیں:

"و كان الرجلان المهاجران المذكوران في الآثار التي رويناها، هاجرا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم معاً فتساويا في ذلك، و أقاما عنده باذلين لأنفسهما فيما يصرفهما فيه من جهاد و من غيره من الأشياء التي يتقرب بها إلى الله عزوجل و يصرف المقتول منهما في الجهاد حتى قتل فيه، ولم يكن يصرفه ذلك إلا بتصريف رسول الله إياه فيه، و عسى أي يكون صاحبه قد كان معه في ذلك فساواه فيه وزاد الآخر علي الشهادة التي قد بذل نفسه لمثلها فكان ذلك في معنى الشهيد و إن كان الشهيد يفضله فيما حل به من القتل فإنه قد بذل نفسه لذلك ثم عاش بعده حولاً في هجرته إلى رسول الله، ولذلك من الفضل إنفاق ماله فتفرد بذلك على صاحبه، وكان ذلك مصلياً صلوات مدته تلك و صائماً شهر رمضان الذي مر عليه فيها. و لذلك من الفضل إنفاق ماله. فلم يكن في ذلك  مما يجب أن ينكر تجاوزه لصاحبه في المنزلة في الثواب عليها و في استحقاق سبقه إياه إلى الجنة.” ( مشکل الآثار للطحاوی، 6/21)

امام طحاوی رحمہ اللہ کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حضرات ویسے تو اعمال میں برابر تھے۔ اور جس جہاد میں ایک صاحب شہید ہوئے تھے۔ اس میں دوسرے بھی چونکہ پورے اخلاص اور شہادت کی تمنا کے ساتھ شریک تھے، اس لیے اس عزم مصمم کی وجہ سے شہادت کا ثواب انہیں بھی مل گیا، اس لحاظ سے دونوں  کے درمیان حقیقت میں معمولی فرق تھا۔ اور وہ فرق سال بھر کے اعمال  سے ختم ہوگیا، بلکہ وہ اپنے اخلاص اور سال بھر کے اعمال کی بدولت آگے بڑھ گئے ۔

چنانچہ اس لحاظ سے اس روایت کا یہ پہلے ایسا نہیں کہ جس پر تعجب یا انکار کیاجائے۔

و راجع أيضاً عون المعبود24/ 38 / و بذل المجهود، 3/ 418

تنبیہ:واضح رہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ   میں سے نہیں ہیں۔ فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved