• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گاؤں میں دوسری جگہ نماز جمعہ قائم کرنا

  • فتوی نمبر: 5-182
  • تاریخ: 05 اکتوبر 2012

استفتاء

دیہاتی علاقہ میں گاؤں کے اندر ایک محلہ ہے جس میں گھروں کی تعداد تقریباً 70 ہے ان میں سے 10 گھروں کا مسجد اور محلہ والوں سے مکمل بائیکاٹ ہے۔ محلہ سے گاؤں کی مرکزی جامع مسجد کا فاصلہ ڈیڑھ دو کلومیٹر ہے اور اس مرکزی جامع مسجد میں جید علماء کرام کی موجودگی میں نماز جمعہ اداکی جاری ہے۔ محلہ سے شہر کا فاصلہ 25 کلومیٹر ہے اس محلہ کے اندر ایک ہی مسجد ہے جس کے اندر نمازیوں کی گنجائش تقریباً 20 ہے۔ اور اس میں نہ کوئی باقاعدہ امام ہے نہ مؤذن یہاں 2005 ء میں جمعہ شروع کیا گیا۔ جمعہ کے دن نمازیوں کی تعداد 30 سے 35 ہے ، ان میں بھی اکثر بچے ہیں۔

اب اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں جمعہ نہیں ہوتا، اس لیے کہ یہاں جمعہ کی شرائط موجود نہیں ہیں۔ مثلاً نہ کوئی باقاعدہ امام ، مؤذن ، نہ عدالت، نہ شہر، نہ گاؤں ، نہ ضلع، نہ مسجد کے آس پاس اور مساجد۔ اس لیے یہ لوگ گھروں میں نماز ظہر یا گاؤں یا شہر میں جا کر جمعہ ادا کرتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم عرصہ ساڑھے سات سال سے یہاں جمعہ کی نماز ادا کررہے ہیں اس لیے یہاں ہی جمعہ کی نماز ادا کی جائے گی۔

1۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہاں جمعہ کی نماز ادا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

2۔ اگر صحیح نہیں تو عرصہ سے نماز جمعہ ادا کی گئی اس کی قضا کی صورت کیا ہوگی؟

3۔ اگر صحیح نہیں تو نماز جمعہ چھوڑنے پر کیا ہم لوگ گناہ کے مرتکب ہوں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

محلہ سے گاؤں کی مرکزی مسجد ڈیڑھ ، دو کلومیٹر ہے، اس فاصلے میں آبادی ہے یا ویرانہ ہے۔

اگر آبادی ہے تو محلہ کی مسجد میں نماز جمعہ درست ہے اور اگر ویرانہ ہے تو محلہ کی مسجد میں جمعہ درست نہیں ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved