• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

غائب شریک کی طرف سے اجازت

استفتاء

***، ***، ***اور ***نے مشترکہ طور پر اپریل کے مہینے میں ایک کروڑ روپے کی گندم 800 روپے فی بوری گندم خرید کر ذخیرہ کی، ارادہ یہ تھا کہ دسمبر میں جب اس کی قیمت تقریباً 1500 روپے فی بوری ہو گی بیچیں گے، یہ معاہدہ لکھ کر سب کے دستخط لے گئے، معاہدہ میں یہ بھی تھا کہ سٹاک کی فروخت چاروں طے کریں گے۔

***دسمبر میں بیرون ملک چلا گیا جب کہ گندم کی قیمت 1000 روپے فی بوری تھی، دسمبر کے پہلے ہفتہ میں واپسی کا وعدہ کیا۔

اکتوبر میں یہ افواہیں اڑیں کہ ملک میں گندم در آمد کی جا رہی ہے، جس کے سبب بازار میں قیمت گر جائے گی، چنانچہ گندم کی قیمت گرنا شروع ہو گئی، قیمت 700 روپے فی بوری تک پہنچ گئی۔ یہ بات واضح تھی کہ اگر معاملہ ایسا ہی رہا تو قیمت 400 روپے فی بوری تک پہنچ جائے گی، کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی ریٹ نیچے آ رہا تھا۔ سارے شرکاء (تینوں) مجتمع ہو گئے، *** سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی رابطہ نہ ہو سکا، انہوں نے اندازہ لگایا کہ اگر انتظار کرتے ہیں تو 5 لاکھ روپے کا نقصان ہے، مزید نقصان سے بچنے کے لیے انہوں نے 700 روپے فی بوری پر ہی بیچ دی، لیکن ملک میں گندم کی متوقع در آمد نہ ہوئی اس لیے گندم کی قیمت پھر بڑھ گئی۔

***دسمبر میں (وعدہ کے مطابق) واپس آ گیا۔ گندم کی قیمت اس وقت 1400 روپے فی بوری تھی، جب اس کو یہ پتا چلا کہ گندم 700 روپے فی بوری بیچ دی گئی ہے تو اس نے کہا کہ آپ نے کنٹریکٹ (معاہدہ) کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے، اب وہ دسمبر کے ریٹ کے مطابق اپنا حصہ مانگ رہا ہے۔

از روئے شرع کیا اس کا مطالبہ ٹھیک ہے؟ اس صورت میں شریعت کیا حل پیش کرتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مذکورہ بیان سچا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کاروباری ذہن کے مالک نہیں تھے جس کی دلیل یہ ہے:

i۔  یہ لوگ افواہ سے متاثر ہو گئے حالانکہ افواہیں اٹھائی اور پھیلائی جاتی ہیں تاکہ سیدھے سادھے لوگ مارکیٹ سے نکل جائیں۔ اگر یہ لوگ مہارت رکھتے تو غلط و صحیح کا اندازہ کرتے، یہ خیال کرنا کہ گندم کے ریٹ 800 سے گر کر 400 پر آ جائیں گے یہ آخر کیسے ممکن ہے؟ سرکاری ریٹ سے کہیں زیادہ گر جائیں گے، آخر کیوں؟ جب نارمل ریٹ پر گندم مل رہی ہے اور کمی بھی نہیں ہے تو عام حالات میں در آمد کیوں کی جائے گی؟ آخر یہ کیا ہوا کہ 700 پر انہوں نے گندم فروخت کی اور ریٹ اس پر رک گئے، آخر کیوں؟

ii۔ پھر جب ریٹ چڑھنے شروع ہوئے تو یہ لوگ فوری دوبارہ خرید لیتے مثلاً 750 فی بوری خرید لیتے تو کچھ نقصان پر نفع پھر بھی زیادہ ہوتا۔ مثلاً اب 1400 کی ہے تو 150 کا نقصان ہوتا اور 600 کا نفع ہوتا تو کل نفع 450 روپے ہو جاتا۔ یہ لوگ 700 میں بیچ کر اپنا روپیہ لے کر بیٹھ گئے۔ چوتھا آدمی اگر کچھ سوجھ بوجھ کا آدمی ہوتا تو وہ 1500 میں بچنے کا کہہ کر غائب نہ ہوتا اور رابطہ بھی رکھتا کیونکہ مارکیٹ کے حالات بدلتے رہتے ہیں خاص طور پر اس جدید دور میں کیونکہ عیار لوگ اپنی عیاریاں بھی چلاتے ہیں جن سے وقتی طور پر ایک بڑا انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔

اب مسئلے کا جواب یہ ہے کہ شرکت عقد ہے اور شراکت میں سب شریکوں کا مقصد نفع حاصل کرنا اور نقصان سے بچنا ہوتا ہے، چونکہ ***بیرون ملک چلا گیا اور اس نے قیمت گرنے میں کیا کیا جائے اس کی ہدایت نہیں دی اور نہ ہی رابطہ رکھا اس لیے اس کی طرف سے دلالۃً اجازت سمجھی جائے گی کہ مزید نقصان سے بچنے کے لیے گندم فروخت کر دو۔ دلالۃً اجازت کی وجہ سے ***دیگر تین شریکوں سے تاوان نہیں لے سکتا۔ رہی یہ بات کہ نفع کمانے کا موقع حاصل ہوا اور اس میں بھی ***کی جانب سے دلالۃً اذن موجود تھا، لیکن جب بقیہ تین شرکاء نے اپنی نا سمجھی سے وہ موقع ضائع کر دیا تو اس پر ***ان سے تاوان وصول نہیں کر سکتا، کیونکہ نفع کا ہونا اور وہ بھی کسی متعین مقدار میں یقینی نہیں ہوتا۔

اشکال: مذکورہ مسئلہ کو شرکت عقد بنا لیں تو شریک کی "باہمی رضا مندی” کی قید کی کیا حیثیت ہو گی؟

و كل ما كان لأحدهما أن يعمله إذا نهاه شريك عنه لم يكن له عمله فإن عمله ضمن نصيب شريكه. (هندية: 2/ 302)

جواب: اس کی صورت مسئلہ یہ ہے مثلاً ایک شریک نفع دیکھ کر فروخت کر سکتا ہے، لیکن دوسرا کہتا ہے کہ تم میری اجازت کے بغیر فروخت نہ کرنا۔ پہلے دور میں اس قسم کے حالات دنوں میں تو کیا ہفتوں میں کہیں جا کر ہوتے ہوں گے جب کہ ہمارے دور میں ٹیلی فون اور نیت کے ذریعے ایسے حالات جن سے قیمت میں کمی بیشی ہوتی ہے گھنٹوں کیا منٹوں میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک افواہ کے پھیلنے کی دیر ہوتی ہے کہ قیمتیں کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہیں۔ ایسے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہو جلد از جلد کرنا ہوتا ہے، البتہ حالات کو خود سمجھ کر مذکورہ صورت میں ***چار مہینے تک غائب رہا اور رابطہ کی صورت بھی نہ رکھی ہو تو اگر واقعی ریٹ اور گر جاتا اور 600 یا 500 تک آ جاتا تو کیا ***کو یہ بات منظور ہوتی کہ باقی تین شرکاء بیٹھے رہتے اور اپنا بھی مزید نقصان کرتے اور ***کا بھی کرتے۔

اس لیے آج کل کے حالات میں شراکت کے ایسے معاملات میں تا تو رابطہ رکھنا ضروری ہے یا پھر اذن کو دلالۃً ماننا ضروری ہے۔ یہ خیال ہو کہ نہیں صریح کے ہوتے ہوئے دلالۃً اذن کا کیا کام؟ جواب یہ ہے کہ حالات ایک جیسے رہیں تو یہ ضابطہ مفید ہے ورنہ مقصد کے موافق اذن ہو گا اگرچہ دلالۃ ہو، نہی نہ ہو گی اگرچہ صراحتاً ہو۔

أما الشركة بالمال فهي أن يشترك اثنان في رأس مال فيقولا اشركا فيه علی أن نشتري و نبيع معاً أو شتی أو أطلقا علی أن ما رز ق الله عز وجل من ربح فهو بيننا علی شرط كذا. (هندية: 2/ 302)

لأن المقصود من هذه الشركة ليس تملكا للأعيان بغرض الاستهلاك أو الانتفاع الشخصي و إنما المقصود منه استثمار مشترك و هو الفارق الأساسي بين شركة الملك و شركة العقد. (الصكوك، محمد تقي العثماني) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved