• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غائبانہ نماز جنازہ سے متعلق ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کی روایت کا جواب

استفتاء

جیسا کہ آنحضرت کو معلوم ہے کہ دین حق کے خلاف مختلف قسم کے سازشیں ہوتی چلی آرہی ہیں، اور اسی راہروی پر ایک جماعت گامزن ہے  اور وہ قرآن وحدیث کی آڑ میں آکر لوگوں کو خصوصاً عوام کو اس بے راہروی اور آزاد خیالی میں مبتلا  کر رہی ہے، اس جماعت کے دیگر مسائل اپنی جگہ پر، یہ جماعت غائبانہ نماز جنازہ کے جواز کو بڑے زور و شور سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس پر مختلف احادیث دلائل میں پیش کرتی ہے، ان حضرات کی تردید میں جہاں ہمارے اکابرین نے ان کے دلائل کے متعدد جوابات دیے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احقر نے بھی اس پر ایک مختصر سا رسالہ جمع کیا ہے اور اس رسالہ میں اس جماعت کے دلائل میں سے حدیث نجاشی، حدیث معاویہ، شہدائے احد کے دلائل کے جوابات تو بحمد اللہ اپنے اکابر علمائے کرام سے میسر ہوئے اور ان کو قلم بند کر لیا ہے، لیکن اس جماعت کے ایک فرد نے اپنے استدلال میں ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کی درج روایت پیش کی ہے:

عن ابن جريج قال: أخبرني أبو بكر، عن أبيه، أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلى على أم مكتوم أخت سودة بنت زمعة وتوفيت بمكة فصلى عليها بالبقيع بقيع المصلى، وكبر عليها أربعاً. (مصنف عبد الرزاق: كتاب الجنائز: رقم: 6409، 3/483).

مذکورہ روایت کا کوئی مدلل جواب احقر کو میسر نہ ہو سکا، عجیب بات یہ ہے کہ میری معلومات کے مطابق یہ روایت ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں موجود نہیں ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ اصحابِ مذہب میں سے غائبانہ جنازہ کے قائلین میں سے کسی نے اس کو اپنے استدلال کیا، حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ حضرات معاویہ بن معاویہ والی روایت جیسی ضعیف کو اپنے استدلال میں پیش کر دیا ہے، نیز میرے علم میں نہیں ہے کہ مانعین کی جماعت کے متقدمین و متاخرین میں سے کسی نے اس کا کوئی جواب دیا ہو، اور مذکورہ جماعت کے بڑوں میں سے بھی کسی کی کتاب میں یہ مستدل مجھے میسر نہ ہو سکا۔

مذکورہ روایت کے سلسلہ میں بعض اکابرِ اہل علم سے بھی مشورہ ہوا، لیکن چند اصولی جوابات مثلاً: ’’یہ وایت مرسل ہے، خصوصیت پر محمول ہے‘‘ کے علاوہ کوئی تسلی بخش مدلل جواب نہ مل سکا، اس لیے کہ واقعہ نجاشی کی خصوصیت پر متعدد قرائن اور روایات موجود ہیں، لیکن اس واقعہ کی خصوصیت پر قرائن تو کیا، اس واقعہ کا ہی ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کے علاوہ کسی جگہ ذکر ہی نہیں، بلکہ اس کے قریب قریب کوئی اور واقعہ بھی نہیں ملتا۔

چنانچہ بندہ آنجناب کو اس سلسلے میں کچھ زحمت دینے کی تکلیف دینے پر مجبور ہو چکا ہے، لہذا بندہ کی عاجزانہ گذارش ہے کہ آنجناب اس عقدہ کو حل فرما کر اس کے مدلل وشافی جواب سے بندہ کو مالا مال فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس روایت کے ثابت ہونے کی صورت میں:

غائبانہ نماز جنازہ کے دو واقعات کے علاوہ یہ ایک تیسرا واقعہ ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے مدنی دور میں بہت سے حضرات کی وفات وشہادت کے واقعات ہوئے، لیکن ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ اس لیے یہ واقعہ بھی خصوصیت کا حامل ہو گا اگرچہ وہ خصوصیت ہمارے سامنے نہیں آئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved