- فتوی نمبر: 19-395
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > متفرقات عقائد و نظریات
استفتاء
جو شخص عالم دین نہیں اسے وعظ وتقریر کرنا درست نہیں ۔ وعظ اور تقریر میں اکثر قرآن کی آیت یا کسی حدیث کا مفہوم بیان کرنا ہوتا ہے ، غیر عالم اس کا صحیح مفہوم نہیں بیان کرسکتا ،قرآن اور حدیث میں تحریف کا اندیشہ ہے اس لئے غیر عالم کوئی معتبر کتاب لے اور وہاں سے پڑھ کر سنادیا کرے ۔ واللہ تعالی اعلم
دار الافتاء دارالعلوم دیوبند
میر ا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی تو خود فرماتے ہے :میری آیتیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناؤ ،اور حدیث میں بھی ہے کہ مجھ سے ایک آیت بھی سنو آگے پہچادو ۔ پھر چاہے وہ ا یک حدیث ہو یا آیت تو پھر اس فتوی کا کیا مطلب ہے ؟
مہربانی فرماکر رہنمائی فرمادیں
اب اگر ہم جماعت والے اپنے بیان میں ایک آدھی آیت اورحدیث پڑھ دیتے ہیں وہ بھی بالکل درست اور اس کا ترجمہ بتادیتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بیان کرنے والا اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ صرف صحیح اور مستند بات ہی بیان کرے تو اس کا رسمی عالم ہونا ضروری نہیں ،غیر عالم بھی ایسا بیان کرسکتاہے ۔جن حضرات نے غیرعالم کو وعظ سے منع کیا ہے انہوں نے اسی شخص کو منع کیا ہے جو حدود کی رعایت نہ رکھتاہو۔
چنانچہ ملاعلی قاری ؒلکھتے ہے :
ثم إنه إنما يأمر وينهي من كان عالما بما يأمر به وينهي عنه وذلك يختلف باختلاف الشيء فإن كان من الواجبات الظاهرة أو المحرمات المشهورة كالصلاة والصيام والزكاة والزنا والخمر ونحوهما فكل المسلمين عالم بها وإن كان من دقائق الأفعال والأقوال وما يتعلق بالاجتهاد لم يكن للعوام مدخل فيه لأن إنكاره على ذلك للعلماء(مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح باب الامر بالمعروف)
فتاوی محمودیہ (4/333)میں ہے :
غیر عالم کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ کتاب پڑھ کر سنادے مستقل تقریر نہ کرے کیونکہ عامۃ الناس حدود کی رعایت نہیں کر پاتے ، اگر حدود کی رعایت کرے اور جو بات کہے مستند کہے تو اس کی بھی اجازت ہے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved