• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر عالم شخص کا قرآن کا ترجمہ یاد کر کے بیان کرنا

استفتاء

محترم مفتی صاحب! میں نے موت کے متعلق چند آیات کا ترجمہ ایک صفحہ پر لکھا ہے، سورت اور آیت کا حوالہ بھی ساتھ لکھ دیا ہے۔ میں نہ تو حافظ ہوں اور نہ ہی عالم ہوں۔ اگر میں ان آیات کے مفہوم کو یا پورا ترجمہ اچھی طرح سے یاد کر لوں اور اس کی دعوت اپنے مسلمان بھائیوں کو دوں تو کیا اس میں کوئی شرعی روک تو نہیں ہے؟

اس کے علاوہ اگر میں انہی آیات کا ترجمہ (جو کہ کسی مستند صاحب کا ہو، جیسے حضرت تھانوی رحمہ اللہ، فتح محمد جالندھری صاحب رحمہ اللہ وغیرہ کا) خود بھی یاد کروں، اور اپنے ساتھیوں کو بھی یاد کروا دوں، تاکہ ہمارے ساتھی بھی موت کے بارے میں فکر مند ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی موت کے تذکرے سے فکر مند کر سکیں۔ تو کیا اس میں شریعت کے اعتبار سے کوئی حرج تو نہیں؟ کیونکہ  یہ قرآن پاک کی آیات ہیں، اور ہم ان کا ترجمہ ہی بیان کر رہے ہیں۔

اور کیا ان آیات کا ترجمہ دوسروں کو سنانے سے قرآن پاک کو پھیلانے کا بھی ثواب ملے گا، اگرچہ ہم حافظ نہ ہونے کی وجہ سے آیات تو تلاوت نہیں کر سکتے۔

الجمعة (پارہ: 28، آیت: 8): آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ (موت ایک روز) تم کو آ پکڑے گی، پھر تم پوشیدہ اور جاننے والے کے پاس لے جائے جاؤ گے، پھر وہ تم کو تمہارے سب کیے ہوئے کام بتلا دے گا (اور ان کی سزا دے گا)۔

الواقعة  (پارہ: 27، آیت: 83): سو جس وقت روح حلق تک آ پہنچتی ہے اور تم اس وقت  تکا کرتے ہو (دیکھ رہے ہوتے ہو)، اور ہم اس (وقت اس مرنے والے) شخص سے تم سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں، لیکن  تم سمجھتے نہیں ہو تو (فی الواقع)  اگر تم کسی کے حکم میں نہیں ہو تو  کیوں تم اس روح کو (بدن کی طرف) واپس نہیں لے آتے۔  (تھانوی صاحب اور عثمانی صاحب دونوں سے لیا ہے)

النساء (پارہ: 5، آیت: 78): تم جہاں کہیں بھی ہو، وہاں ہی تم کو موت آ دبائے گی، اگرچہ تم چونا  قلعی کے قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو۔

الانفال (پارہ: 10، آیت: 50-51) اگر آپ (اس وقت کا واقعہ) دیکھیں جب فرشتے ان (موجودہ) کافروں کی جان قبض کرتے جاتے ہیں، اور ان کے منہ اور ان کی پشتوں پر مارتے جاتے ہیں، اور یہ کہتے جاتے ہیں (ابھی کیا ہے آگے چل کر) آگ کی سزا جھیلنا اور یہ عذاب ان اعمال (کفریہ) کی وجہ سے ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں، اور امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں۔

الم سجدہ (پارہ: 21، آیت: 11) آپ فرما دیجئے کہ تمہاری جان موت کا فرشتہ قبض کرتا ہے۔ جو تم پر متعین ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹا کر لائے  جاؤ گے۔

النساء (پارہ: 4، آیت: 18) اور ایسے لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت ہی آ کھڑی ہوئی، تو کہنے لگا، میں اب توبہ کرتا ہوں، اور نہ ان لوگوں کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جن کو حالت کفر پر موت آجاتی ہے، ان لوگوں کے لیے ہم نے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔[1]

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کیا سائل کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ اگر ہے تو جماعت کی جو پالیسی اس بارے میں ہے اس پر عمل کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جبکہ آپ نہ حافظ ہیں اور نہ عالم ہیں، تو آپ کے لیے ان آیات کا ترجمہ خود یاد کر کے یا دوسروں کو یاد کرا کے لوگوں کو اس کی دعوت دینا درست نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس دور کے لوگوں کے حافظے عموماً کمزور ہیں، جس کی وجہ سے ترجمہ قرآن میں کمی بیشی کا قوی امکان ہے۔ البتہ اس کے متبادل دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔ کسی مستند ترجمہ قرآن سے بعینہ لفظ بلفظ ان آیات کا ترجمہ کو کسی کاغذ پر نقل کر کے لفظ بلفظ یہ ترجمہ پڑھ کر آگے لوگوں کو سنا دیا جائے۔

2۔ ان آیات کے مفہوم کو ذہن نشین کر کے لوگوں کو اس مفہوم کی دعوت دی جائے۔ یعنی یہ کہہ  دیا جائے کہ یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ قرآنی آیات کا مفہوم ہے، نہ کہ ان کا ترجمہ۔

چنانچہ جامع الترمذی میں ہے:

عن جندب بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد أخطأ.

ترجمہ: حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قرآن پاک کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا، پس اگر وہ درست بھی نکلا تو پھر بھی اس نے غلطی کی۔

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار، هذا حديث حسن صحيح. (2/ 589)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قرآن پاک کے بارے میں بغیر علم کے کچھ کہا، پس چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved