• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

:(۱)غیرمسلموں کے تہواروں میںشرکت کاحکم(۲)اوراس پر مبارک باد دینا(۳)اس کاگناہ کس درجہ کاہے (۴)سالگرہ اوربرسی کااحکام

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۔            ایک مسلمان کے لیے کیا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی ایسی تقاریب میں جو ان کے مذہبی تہوار کی حیثیت سے منعقد ہوتی ہیں شریک ہونا جائز ہے ؟مثلا دیوالی ،ہولی ،دسہرہ ،بیساکھی ،کرسمس ،ایسٹروغیرہ ۔بالخصوص جب یہ واضح ہے کہ کرسمس ،نصاری کا مذہبی تہوار ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق ’’خدا کے بیٹے یسوع مسیح‘‘کا یوم پیدائش مناتے ،سالگرہ کا کیک کاٹتے اور 25دسمبر کو اپنے لیے جشن اور عید کا دن سمجھتے ہیں ۔۔۔ظاہر ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے ان کا یہ عقیدہ مشرکانہ ہے ۔۔مسلمان مذہبی یا سیاسی رہنمائوں یا عام مسلمانوں کا گرجوں میں یا مسیحیوں کے گھروں میں منعقدہ کرسمس کی تقریبات میں شریک ہو کر حضرت مسیح علیہ السلام کی سالگرہ کا کیک کاٹنا جائز مناسب یا مباح ہو سکتا ہے ؟

۲۔            اس طرح کے تہوار پر مسلمانوں کا ان مذاہب کے ماننے والوں کو مبارک دینا اور خوشی کا اظہار کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے ؟

۳۔            اگر یہ عمل ایک مسلمان کے لیے گناہ ہے تو یہ کس درجے کا گناہ ہے اور اس سے توبہ کرنے کا کیا طریقہ ہو گا؟

۴۔            اسلامی تعلیمات کے مطابق سالگرہ اور برسی کے متعلق احکام کیا ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔            ناجائز ہے ۔

چنانچہ فتاوی محمودیہ(نوازدہم صفحہ:565)میں ہے:

سوال :مسلمانوں کا ہندو کی خوشی میں شامل ہونا مثلا بنگال میں یہ رواج ہے کہ جب وہاں راملیلا ہوتی ہے تو کشتی پر بتوں کو رکھ کر اس کے پیچھے کشتیوں میں سوار ہو کر ہندو اور مسلمان شرکت کرتے ہیں اور ان کشتیوں کو ہندو و مسلمان کھیلتے بھی ہیں اور بالخصوص مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلمانوں کا ان کی مجلس میں شرکت کرنے سے ان کے مسلمان ہونے میں تو کوئی اثر پیدا نہیں کرتا؟

الجواب:یہ شرکت قطعا ممنوع ہے اور گناہ ہے اس سے توبہ لازم ہے۔

في المشکوة:375

عن ابن عمر رضي الله عنهما قال:قال رسول الله من تشبه بقوم فهومنهم۔

قال الملاعلي القاري:من شبه نفسه بالکفار مثلا في اللباس وغيره او بالفساق اوالفجار اوباهل التصوف الصلحاء الابرار فهو منهم اي في الاثم والخير۔

قال العلامة المناوي من تشبه بقوم اي تزيا في ظاهره بزيهم وفي تعرفه بفعلهم وفي تخلقه بخلقهم وسار بسيرتهم وهديهم في ملبسهم وبعض افعالهم اي وکان التشبه بحق قد طابق فيه الظاهر الباطن۔۔۔وانه لايجوز الآن لبس عمامة زرقاء او صفراء ۔۔۔لو خص اهل الفسوق والمجون بلباس منع لبسه لغيرهم قفد يطن به من لايعرفه انه منهم فيظن به ظن السوء فياثم الظان والمظنون فيه بسبب العون عليه وقال بعضهم قد يقع التشبه في امور قلبية ۔۔۔۔وقدتکون عادات في نحو طعام ولباس ومسکن ونکاح واجتماع وافتراق ۔۔۔۔وقديحمل منهم في القدر المشترک الذي شابههم فيه فان کان کفرا او معصية او شعارا لهاکان حکمه کذلک(فيض القدير شرح الجامع الصغير:115744رقم الحديث:8593)

فتاوی محمودیہ جلد نمبر3/ 566میں ہے:

سوال: رام  لیلایا اس قسم کے تہواروں میں شرکت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: ان کے مذہبی تقریبات میں شرکت خطرناک ہے ،الا یہ کہ مقصود شرکت سیروتفریح، نیز رونق بڑھانا نہ ہو بلکہ کوئی جائز و پسندیدہ مقصد ہو۔ کفار کی مذہبی تہواروں میں شرکت کرکے انہیں کی طرح اس میں حصہ لینے اور اسے موافقت کرنے سے متعلق فقہائے کرام کی عبارات بہت سخت ہیں کہ کفر کے حکم پر مشتمل ہے۔

فتاوی محمودیہ جلد نمبر نوزدہم صفحہ نمبر 569.میں ہے:

سوال: میلے میں جانا کیسا ہے کلبہ اور چھتر کا میلہ اور دسہرا وغیرہ جبکہ تجارت یا کسی چیز کے خریدنے کی نیت سے جائے اور میلے کے اندر تمام ملک کی اشیاء آتی ہیں اور تجارت کا بڑا مرکز ہو نمائش میں بلاضرورت جانا کیسا ہے؟

الجواب :ہندوں کے مخصوص قومی اور مذہبی میلے ہیں ان میں جاکر ان کی رونق بڑھانا ناجائز ہے مسلمانوں کو ان سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر کوئی ایسی چیز وہاں فروخت ہوتی ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے اور دوسری جگہ کو ملتی بھی نہیں تو اس کو خریدنے کے لئے جانے میں گنجائش ہے، لیکن اگر دوسری جگہ وحشی ملتی ہو یا اس کی ضرورت شدیدہ نہ ہو تو محض تجارت کے لئے وہاں جانا منع ہے حدیث شریف میں بازار کو شرالبقاع کہا گیا ہے لہذا بلاضرورت بازار میں ہرگز نہیں جانا چاہیے اور نمائش میں بازار سے بدرجہا زیادہ خرابیاں ومفاسد ومنکرات ہیں وہاں جانا بلاضرورت کیسے جائز ہو سکتا ہے  بضرورت ومجبوری لہوولعب و منکرات سے بچ کر جانا درست ہے اہل علم کو جانا ہرگز زیبا نہیں۔

فتاوی محمودیہ جلد نمبر نوزدہم صفحہ نمبر 571میں ہے:

سوال: کسی محلہ میں بضرورت خریدوفروخت جانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: ضرورت کسی دوسری جگہ نہ ملتی ہو اس کو خریدنے کے لئے جانا درست ہے بھلا اس کے نہیں جانا چاہیے۔

ایضافیہ

سوال یہاں پر رکشہ بندھن کا میلہ لگتا ہے اس موقع پر مٹھائی خرید کر کھانا جائز ہے یانہیں میلہ کی وجہ سے میں بہت زیادہ بنتی ہے.؟

الجواب: دکاندار اپنی بکری کے لیے مٹھاء بناتے ہیں اس کو خرید کر کھانا درست ہے اگرچہ و رکشا بندھن والوں کے خریدنے کی نیت سے بناتے ہیں میلہ میں شرکت سے اجتناب چاہیے۔

۲۔ ناجائز ہے ۔

فتاوی محمودیہ جلد نمبر نوزدہم صفحہ 567 میں ہے :

سوال :قوم کے تہوار کے دن مسلمانوں کو انہیں مبارکباد دینا درست ہے یا نہیں ؟

جواب :درست نہیں.

۳۔            گناہ ہے اور توبہ کا اصول یہ ہے کہ جس پیمانے پر گناہ ہو اسی پیمانے پر توبہ کی جائے ۔اگر شریک ہونے والا مذہبی یا عوامی راہنماء ہے جس کے عمل سے دوسروں کے عقیدہ وعمل میں خرابی آتی ہے اور اس کی شرکت بھی اعلانیہ ہے تو اللہ سے استغفار کے ساتھ ساتھ اس عمل کے اثرات کا ازالہ بھی اسی پیمانے پر ہونا چاہیے۔

۴۔            سالگرہ اور برسی دونوں غیروں کی رسمیں ہیں اسلام کا ان سے تعلق نہیں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved