• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غير مسلم كے مرنے پر اس کےليے "وفات پاگئے” کے الفاظ استعمال كرنا

استفتاء

کیا  کسی کافر(ہندو،سکھ یا عیسائی )کے مرنے پر اس کے لیے ”  انتقال کرگئے "یا  "وفات پاگئے”کہنا  یا متوفی لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز ہے تو کیا دلیل ہے؟ کیونکہ یہ الفاظ عموماً مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں  ۔جبکہ ہمارے ہاں  کفار کے لیے "مرگیا "یا "مردار ہوگیا”  الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جائز ہے۔

توجیہ: مذکورہ الفاظ سے فقط موت کی خبر دینا مقصود ہوتا ہے ،احترام مقصود نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ الفاظ کافر کے لیے استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

تفسیر بغوی(8/424) میں ہے:

إذا ‌توفي ‌العبد المؤمن أرسل الله عز وجل ملكين إليه وأرسل إليه بتحفة من الجنة ………. وإذا توفي الكافر أرسل الله إليه ملكين وأرسل قطعة من بجاد …….

تاج العروس (40/103) میں ہے:

(و) من المجاز: ‌أدركته ( {‌الوفاة) : أي (الموت) والمنية. } وتوفي فلان: إذا مات.{وتوفاه الله) ، عز وجل: إذا (قبض) نفسه؛ وفي الصحاح، (روحه)

المحیط فی اللغۃ (10/436) میں ہے:

والوفاة: المنية، توفى فلان، توفاه الله، قبض نفسه

فیروز اللغات (126) میں ہے:

انتقال کرنا:  مرنا۔ فوت ہونا

فیروز اللغات (126) میں ہے:

وفات پانا: (محاورہ) مرنا۔ انتقال کرنا جانا             

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved