- فتوی نمبر: 23-125
- تاریخ: 03 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
1-جو بھی غلط کام کرتا ہے اس کی قیمت اس کے بچوں ، ماں ،یا بہن کو اس دنیا میں ہی ادا کرنی پڑتی ہےکیا یہ بات درست ہے؟
2- امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ زنا ایک قرض ہے اگر تو یہ قرض لے گا تو تیرے گھر سے یعنی تیری بہن، بیٹی سے وصول کیا جائے گا ۔
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ "پاکدامن لڑکیاں پاکدامن لڑکوں کے لئے ہیں "اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اچھے ہیں تو اللہ تعالی آپ کو اچھی بیوی دیں گےاور اگر آپ خراب ہیں تو سمجھ لیجئے (کہ آپ کے گھر والے بھی خراب ہیں )
سوال يہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کایہ قول اور آیت آپس میں مناقض ہیں یا نہیں ؟آیت میں صرف مرد کا گناہ بیوی تک ہے جیسا مرد ہو گا ویسی اس کو بیوی ملے گی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے قول میں ماں ،بہن ،بیٹی ،بھی شامل ہیں برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
3-اگر کوئی کنوارا لڑکا یا لڑکی کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا گناہ اس کے ماں باپ کو بھی ملتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی جلدی شادی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ غلط کام کرنے لگے۔کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-مذکورہ بات کلی طور پر تو درست نہیں البتہ بعض اوقات آدمی کو اپنے غلط کام کرنے کی سزا اس طرح ملتی ہے کہ اس کے غلط کام کی نحوست کی وجہ سے اس کے متعلقین یعنی بیوی ،بچوں یا ماں، بہن وغیرہ میں اس غلط کام کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ یہ غلط کام کربیٹھتے ہیں جس کی پریشانی اس غلط کام کرنے والے کو بھی ہوتی ہے ۔
مستدرك حاكم (6/ 131) میں ہے؛عن أبي هريرة رضي الله عنه قال :قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم و بروا آباءكم تبركم أبناؤكمالمعجم الأوسط (6/ 240) میں ہے؛عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال عفوا تعف نساؤكم وبرواآباءكم يبركم أبناؤكمفيض القدير للمناوی (4/ 318) میں ہے؛( عفوا تعف نساؤكم ) أي عفوا عن الفواحش تكف نساؤكم عنها وخرج الديلمي عن علي مرفوعا لا تزنوا فتذهب لذة نسائكم وعفوا تعف نساؤكم إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم
2- آیت مبارکہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے قول میں تناقض نہیں کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے قول میں ” أهل بيتك” کا لفظ ہے جو بیوی کیلیے استعمال ہوتا ہے ۔ديوان الامام الشافعی(ص: 12)میں ہے؛عفوا تعف نساؤكم في المحرم … وتجنبوا ما لا يليق بمسلمإن الزنا دين فإن أقرضته … كان الوفاء من أهل بيتك فاعلم
3- اگر والدین اپنی اولاد کی شادی کرنے پر قدرت کے باوجود بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر کرتے رہے حتی کہ وہ اولاد گناہ میں مبتلا ہوگئی تو اولاد کے گناہ میں مبتلاہونے کا ایک سبب بننے کی وجہ سے والدین بھی گناہ گار ہوں گے۔
شعب الإيمان (6/ 401)میں ہے؛"عن أبي سعيد وابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه”مرقاة المفاتيح (10/ 77)میں ہے: وعن أبى سعيد وابن عباس قالا قال رسول الله من ولد له ولد أي ذكراأو أنثى فليحسن بالتخفيف والتشديد اسمه وأدبه أي معرفة أدبه الشرعي وإذا بلغ وفي نسخة صحيحة بالفاء فليزوجه وفي معناه التسري فإن بلغ أي وهو فقير ولم يزوجه أي الأب وهو قادر فأصاب أي الولد إثما أي من الزنا ومقدماته فإنما إثمه على أبيه أي جزاء إثمه عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد "لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح (6/ 41) میں ہے:3138 – عن أبي سعيد وبن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه” (1)(1) زجر وتوبيخ، لا أنه لا إثم على الفاعل، كذا في "التقرير”.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved