- فتوی نمبر: 23-352
- تاریخ: 22 اپریل 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
اسلام میں غسل کے پانی سے کسی بیمار کو دم کرنا یا غسل کرونے کی کوئی حقیقت ہے؟حدیث یا سنت سے ثابت ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:سوال کا پس منظر کیا ہے؟
جواب وضاحت:سوال کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بندہ بیمار ہے اس کو کسی نے کہا ہے کہ اس کو پہلے نہلائیں پھر جس پانی سے غسل کرے اس پر دم کریں یہ سنت طریقہ ہے اس طرح یہ صحیح ہو جائے گا۔کیا اسلام میں اس طرح کا حکم ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:آپ کو اس میں اشکال کیا ہے وہ ذرا کھول کر بیان کردیں ،پھر جواب دیا جائے گا ان شاء اللہ۔
جواب وضاحت :میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عمل سنت ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ عمل کا سنت ہونا کسی کتاب سے نہیں ملا کہ پہلے مریض کو نہلا جائے پھر اس نہلائے ہوئے پانی پر دم کردیا جائے البتہ جس شخص کو کسی کی نظر لگی ہو اس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ جس کی نظر لگی ہے اس کے چند اعضاء دھلواکر ان کا دھوون مریض کی پشت کی طرف سے سر پر ڈالا جائے۔
شرح السنہ(763)میں ہے
اغتسل له ، فغسل له عامر وجهه ، يديه ومرققيه ، وركبتيه ، وأطراف رجليه ، وداخلة إزاره في قدح ، ثم صب عليه ، فراح مع الناس ، ليس به بأس۔
رسول اللہ ﷺ نے عامربن ربیعہ (جن کی نظر سہل کو لگی تھی ان )سے فرمایا سہل بن حنیف کو اپنا دھوون دو ۔تو عامر نے ایک ٹب میں اپنا چہر ہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں کہنیاں اور دونوں گھٹنے اور پاؤں اور اپنی شرمگاہ دھوئی ۔پھر وہ دھوون سہل بن حینف(کی پشت کی جانب سے ان )کے سر پر ڈالا گیا تو وہ ایک دم (ٹھیک ٹھاک ہو کر )لوگوں کےساتھ چل دئیے اور ان کو کچھ تکلیف نہ رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved