- فتوی نمبر: 11-310
- تاریخ: 01 اپریل 2018
استفتاء
گزارش ہے کہ ایک شخص کا اونٹ تندرست تھا ۔ایک روز اونٹ لاپتہ ہو گیا اور دور علاقے میں پہنچ گیا ۔دوسرے علاقے والوں کو اس کے مالک کا پتا نہ چل سکا ۔جب اونٹ پہونچا تو بقول علاقے والوں کے وہ بیمار تھا اور نہایت لاغر تھا حتی کہ وہ ایک طرف پڑا رہتا تھا ۔اس علاقے میں ایک شخص اولاً اس اونٹ کا علاج کرتا رہا پھر اس نے اونٹ کی بے چارگی اور تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد لوگوں کے سامنے اسے نحر کردیا ۔اس علاقے کے لوگ اونٹ کا گوشت بہت رغبت سے نہیں کھاتے خاص کر جب وہ بیمار بھی نظر آرہا ہو۔لہذا تین روز تک اونٹ نحر ہونے کے بعد وہیں پڑا رہا ۔بعد میں کسی شخص نے بدبو کی وجہ سے اور کتوں کے اکٹھے ہو جانے پر بچوں کو نقصان نہ پہنچنے کے ڈر سے اس اونٹ پر ٹریکٹر سے مٹی ڈال دی ۔
اب تقریبا 100دن کے بعد مالک آگیا ہے اور وہ نحر کرنے والے شخص سے جھگڑارہا ہے کہ میرا اونٹ بیمار نہیں تھا تم نے میرا اونٹ بلاوجہ نحر کیا ہے ۔اگر بیمار تھا تو تم مرنے دیتے ورنہ مجھے بتاتے ۔لہذا تم مجھے اونٹ کا تا وان ادا کرو۔نحر کرنے والے کاکہنا ہے کہ مجھے علم ہی نہ ہوا کہ اونٹ کس کا ہے (دونوں کے علاقوں کے درمیان کافی فاصلہ بھی ہے اور دونوں کی ذات وبرادری بھی الگ ہے جس کی وجہ سے دوسرے علاقے میں کسی کو بھی مالک کا اندازہ نہ ہو سکا )
اب دونوں اس بات پر راضی ہیں کہ شریعت کے مطابق جو فیصلہ ہو گا اس پر عمل کرینگے ۔ آ پ سے درخواست ہے کہ واضح فرمادیں کہ تاوان کس پر آئے گا ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نحر کرنے والے کے ذمے اس اونٹ کی نحر کے دن جو قیمت تھی اس کے بقدر تاوان آئے گا ۔
توجیہ : اجنبی شخص اگر کسی آدمی کے ایسے حلال جانور کو ذبح کردے جو کہ مرنے کے قریب ہو چکا تھا اور اس کے بچنے کی امید نہ رہی تھی تو ایسی صورت میں قیاس کی رو سے اس اجنبی شخص پر اس جانور کا ضمان آتا ہے البتہ استحسان کی رو سے اس اجنبی شخص پر ضمان نہیں آتا۔استحسان کی رو سے ضمان نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ مالک کی طرف سے ایسی حالت میں اس جانور کو ذبح کرنے کی دلالۃ اجازت تھی یعنی ایسی حالت میں اگر وہ اجنبی شخص اس جانور کو ذبح نہ کرتا تو مرنے کی صورت میں وہ جانور مردار ہو جاتا اور کسی کے کام کا نہ رہتا ۔لیکن ذبح کرنے کی صورت میں اس جانور کا گوشت حلال ہونے کی وجہ سے مالک کے لیے کا ر آمد ہو سکتا تھا ۔اسی لیے اگر کسی ایسے جانور کوکوئی ذبح کردے کہ جس کا گوشت کھانا حلال نہیں جیسے گدھا ،خچروغیرہ تو ایسی صورت میں بغیر کسی اختلاف کے ذبح کرنے والے پر ضمان آتا ہے کیونکہ ایسے جانورکو ذبح کرکے کار آمد نہیں بنایا جاسکتا ۔
مذکورہ صورت میں اول تو یہ بات یقینی نہیں کہ اس اونٹ کے زندہ رہنے کی بالکل امید ختم ہو گئی ہو اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیں کہ اس کے زندہ رہنے کی امید بالکل ختم ہوگئی تھی تو چونکہ نحر کرنے والے نے نحر کرکے اس کے گوشت کو کار آمد نہیں بنایا بلکہ محض ضائع کیا ہے اس لیے اس کا حکم بھی اس جانور کا سا ہو گا جس کا گوشت کھا نا حلال نہیں ،لہذا مذکورہ صورت میں نحر کرنے والے پر اس کا ضمان آئے گا۔
ردالمحتار9/120میں ہے:
ولوذبحها الراعی او الاجنبی ضمن لو رجاحیاتها او اشکل امرها ولو تیقن موتها لا للاذن دلالة هو الصحیح ولایذبح الحمار ولا البغل اذ لا یصلح لحمها ولاالفرس عنده لکراهته تحریما.
فی دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام2/532:
المسألة الثانیة:لو ذبح احد شاة لاخر لم یبق امل فی حیاتها فلایلزمه ضمان علی قول استحسانا (الخانیة)لکن لو انکر صاحب المال انقطاع الامل من حیاتها لزم الذابح اثباته فاذا لم یثبت وحلف الیمین المالک منکر الایاس بطلب الذابح یضمن الذابح قیمتها یوم الذبح والقول قول الذابح فی مقدار القیمة انظر المادة۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved