• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حدیث کی تحقیق گناہ کیے بغیر گناہ پانے والے

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس حدیث کے بارے میں کہ  کیا یہ حدیث درست ہے ؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں قسم کھا کرکہتا ہوں کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کےلیے ہے جن میں سے ایک وہ قسم ہے کہ اللہ نے جنہیں مال دیا مگر علم نہیں دیا، ایسا شخص مال کمانے اور خرچ کرنے میں نہ اللہ سے ڈرتا ہے، نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اللہ کے حق کا خیا ل رکھتا ہے، یہ بد ترین درجے پر ہے۔

دوسری وہ قسم ہے جنہیں اللہ نے مال اور علم دونوں سے محروم رکھا، ایسا شخص کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں کی طرح غلط جگہوں پر خرچ کرتا ،محض بری نیت کی وجہ سے اسے بھی غلط کام کا گناہ مالدار جتنا گناہ ہوگا۔(جامع ترمذی حدیث نمبر:2325) 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ حدیث درست ہےیعنی جامع ترمذی(رقم الحدیث2325)سنن ابن ماجہ(رقم الحدیث4228)مسند احمد(رقم الحدیث18024) میں موجود ہے۔اور امام ترمذیؒ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے:

(هذا حديث حسن صحيح)ترجمہ:یہ حدیث حسن ہے صحیح ہے۔اوراس حدیث میں جو آپ نے دوسرے درجے کے لوگوں کا ذکر کیا ہےجس میں فرمایا کہ اس کو بغیر گناہ کیے صرف نیت کی وجہ سے ہی گناہ ملے گایہ  اس صورت میں ہے کہ جب اس کی نیت عزم کے درجے کو پہنچ جائے اور اس نے اس کام کے کرنے کی ٹھان لی ہو محض نیت کرنے سے گناہ نہیں ملے گا۔عمدۃ القاری (196/15) میں ہے:والمعتمد ما قاله العلماء المحققون إن هذا إذا لم يوطن نفسه ولم يستقر قلبه بفعلها فإن عزم واستقر يكتب معصية وإن لم يعمل ولم يتكلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved