• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک حدیث(ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ……الخ)  کی تشریح

استفتاء

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَيُونُسُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ : ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ ، فَقَالَ : أَيْنَ تُرِيدُ ؟ قُلْتُ : أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ ، قَالَ : ارْجِعْ ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ :    إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا ، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا الْقَاتِلُ ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ ؟ قَالَ : إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ.

میں اس شخص  ( علی رضی اللہ عنہ )  کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص  ( علی رضی اللہ عنہ )  کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر  ( ضرور دوزخی ہونا چاہیے )  مقتول کیوں؟ فرمایا ”وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔“  ( موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا ) ۔

اس حدیث کو اگر دیکھا جائے تو حضرت علیؓ کے بارے میں سخت وعید ہے۔آپ علماء حضرات اس حدیث کو چھپاتے کیوں ہیں؟ میں چاہتا ہوں اس حدیث کی تفسیر مجھے مل جائے کیونکہ اس حدیث میں واضح طور پر حضرت علیؓ کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ کچھ فرقے صرف حضرت امیر معاویہؓ کو نشانہ بناتے ہیں وضاحت فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

علماء حضرات اس حدیث کو نہیں چھپاتے  اور نہ ہی اس حدیث میں صرف حضرت علیؓ کے بارے میں سخت وعید ہے بلکہ اگر بالفرض اس میں حضرت علیؓ کے لیے وعید ہے تو حضرت علیؓ کے بالمقابل فریق کے لئے  بھی وعید ہے باقی اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہےوہ حضرت ابو بکرہ ؓکی ذاتی رائے ہےاور حضور ﷺکے جس ارشاد کی بنیاد پر ان کی یہ  ذاتی رائے ہے اس کا تعلق ان دو مسلمانوں سے ہے جو محض دنیوی غرض سے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوں، ورنہ تو قرآن پاک کی سورہ حجرات میں یہ صاف حکم ہے کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک جماعت دوسری پر بغاوت کرے تو بغاوت والی کے ساتھ قتال کرو۔ آیت بمع ترجمہ یہ ہے:

’’وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى

فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ‘‘(الحجرات:9)

ترجمہ: ’’اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان اصلاح کر دو پھر اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہو جاوےپھر اگر وہ رجوع ہو جاوے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کر دواور انصاف کا خیال رکھو بے شک اللہ تعالی انصاف والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(بیان القرآن)

فتح الباری(14/528)میں ہے:

’’قال العلماء معنى كونهما في النار أنهما يستحقان ذلك ولكن أمرهما إلى الله تعالى إن شاء عاقبهما ثم أخرجهما من النار كسائر الموحدين وإن شاء عفا عنهما فلم يعاقبهما أصلا وقيل هو محمول على من استحل ذلك۔۔۔

والمراد بالفتنة الحرب التي وقعت بين علي ومن معه وعائشة ومن معها

(قوله نصرة بن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم) في رواية مسلم أريد نصر بن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني عليا۔۔۔

واحتج به من لم ير القتال في الفتنة وهم كل من ترك القتال مع علي في حروبه كسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن عمر ومحمد بن مسلمة وأبي بكرة وغيرهم وقالوا يجب الكف حتى لو أراد أحد قتله لم يدفعه عن نفسه ومنهم من قال لا يدخل في الفتنة فإن أراد أحد قتله دفع عن نفسه وذهب جمهور الصحابة والتابعين إلى وجوب نصر الحق وقتال الباغين۔۔۔

وحمل هؤلاء الوعيد المذكور في الحديث على من قاتل بغير تأويل سائغ بل بمجرد طلب الملك ولا يرد على ذلك منع أبي بكرة الأحنف من القتال مع علي لأن ذلك وقع عن اجتهاد من أبي بكرة أداه إلى الامتناع والمنع احتياطا لنفسه ولمن نصحه۔۔۔

وقد أخرج البزار في حديث القاتل والمقتول في النار زيادة تبين المراد وهي إذا اقتتلتم على الدنيا فالقاتل والمقتول في النار ويؤيده ما أخرجه مسلم بلفظ لا تذهب الدنيا حتى يأتي على الناس زمان لا يدري القاتل فيم قتل ولا المقتول فيم قتل فقيل كيف يكون ذلك قال الهرج القاتل والمقتول في النار قال القرطبي فبين هذا الحديث أن القتال إذا كان على جهل من طلب الدنيا أو اتباع هوى فهو الذي أريد بقوله القاتل والمقتول في النار قلت ومن ثم كان الذين توقفوا عن القتال في الجمل وصفين أقل عددا من الذين قاتلوا وكلهم متأول مأجور إن شاء الله‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved