- فتوی نمبر: 33-307
- تاریخ: 21 جولائی 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تشریحات حدیث
استفتاء
یہ حدیث مشکاۃ المصابیح کی ہے جہاں لکھا گیا کہ علم کو نااہل کے سامنے بیان کرنا علم کی توہین ہے اور حدیث کی تشریح میں ہے کہ علم ان کے سامنے پیش کرو جو اس کی قدر کرتا ہے جو علم سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے شاگرد نہ علم کو سمجھتے ہیں نہ اس کی قدر کرتے ہیں تو کیا ہم ان کو علم نہ پہنچائیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حدیث میں نا اہل سے مراد ایسے دنیا دار قسم کے لوگ ہیں جن میں سمجھنے کی نہ استعداد ہو اور نہ وہ علم کو اہمیت دیتے ہوں اور نہ وہ علم کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہوں۔ آپ کی یہ بات کہ “ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے شاگرد نہ علم کو سمجھتے ہیں نہ اس کی قدر کرتے ہیں” خلاف واقعہ ہے کیونکہ مشاہدے اور تجربے سے یہ بات واضح ہے کہ طلباء کی اکثریت علم کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور علم پر عمل بھی کرتی ہے اور علم کی باتوں کو اہمیت بھی دیتی ہے اور توجہ سے بھی سنتی ہے۔
مشکوٰۃ المصابیح (رقم الحدیث:265) میں ہے:
عن الأعمش قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «آفة العلم النسيان وإضاعته أن تحدث به غير أهله.
مرقاۃ المفاتیح (1/330) میں ہے:
(آفة العلم النسيان ) : أي: بعد حصوله وإلا فقد قيل: لكل شيء آفة وللعلم آفات. أي: قبل التحصيل. قال ابن حجر: فليحذر من أسباب النسيان كالإعراض عن استحضاره والاشتغال بما يشغف القلب من المستحسنات الدنيوية ويذهل العقل من المظاهر الشهوية (وإضاعته) : أي: جعل العلم ضائعا (أن تحدث) : أي أنت (” به غير أهله “) : بأن لا يفهمه أو لا يعمل به من أرباب الدنيا.
التنویر شرح الجامع الصغیر (1/202) میں ہے:
آفة العلم النسيان، وإضاعته أن تحدث به غير أهله هم الذين لا يلقون له سمعًا ولا يرفعون له رأسًا ولا يعملون به إن عرفوه، فإن أهل العلم هم العاملون به، الحراص على سماعه، وكتبه والدعاء إليه.
مرعاۃ المفاتیح، ابو الحسن عبیداللہ بن محمد عبد السلام المبارکفوری،ت:۱۴۱۴ھ (1/353) میں ہے:
(آفة العلم النسيان ) : أي: بعد حصوله ………. وإضاعته أن تحدث به غير أهله بأن لا يفهمه أو لا يعمل به من أرباب الدنيا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved