• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حدیث “مشرق کی طرف سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے” کا مفہوم

استفتاء

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ فتنہ  کی جگہ یہ ہے، بیشک فتنے کی جگہ یہ ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔

امریکہ میں ایک رشتہ دار نے یہ حدیث شریف بھیجی ہے  وہ اس کی تفصیل اور اس حدیث کا مفہوم  سمجھنا  چاہ رہے ہیں۔رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس حدیث میں مدینہ منورہ سے مشرق کی جانب کے علاقوں (یعنی عراق، نجد اور اس طرف کےعلاقوں) کو فتنوں کے ظاہر ہونے کی جگہ بتلایا گیا ہے یہ اس  وجہ سے کہا گیا کیونکہ اس وقت مشرق کی طرف والے علاقوں میں کافروں کی آبادیاں تھیں اور کفر سب سے بڑا فتنہ ہے اور اسی  علاقے والوں کی طرف سے قتلِ عثمانؓ کا فتنہ کھڑا ہوا۔ نیز جنگ جمل، صفین  جیسے عظیم واقعات کے رونما ہونے کا سبب بھی یہی لوگ بنے اور یاجوج ماجووج اور دجال کا ظہور بھی اسی طرف سے ہوگا۔

چنانچہ اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ فتح الباری (13/47) میں  لکھتے ہیں:

كان أهل المشرق يومئذ ‌أهل ‌كفر فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية فكان كما أخبر وأول الفتن كان من قبل المشرق فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة وقال الخطابي نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة

ترجمہ: مشرق والے اس  وقت کافر تھے آپﷺ نے خبر دی کہ فتنہ اس جانب  سے ہوگا جیسے آپ ﷺ نے خبر دی ویسا ہی ہوا اور پہلا فتنہ مشرق کی جانب سے اٹھا  یہی مسلمانوں کے درمیان فرقت کا سبب بنا اسی کو شیطان محبوب رکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے، اسی طرح مختلف بدعتیں اسی جانب سے پیدا ہوئیں اور خطابیؒ فرماتے ہیں نجد مشرق کی جانب واقع ہے اور جو شخص مدینہ منورہ میں ہوگا اس کا نجد عراق کے دیہات اور اس کے  گردو نواح ہوں گے اور وہی مدینہ والوں کا مشرق ہے۔

 اورعلامہ عینیؒ عمدة القارى (15/191) میں لکھتے ہیں:

 ‌والدجال ‌أيضا ‌يأتي ‌من ‌المشرق من قرية تسمى رستاباذ فيما ذكره الطبري ومن شدة أكثر أهل المشرق كفرا وطغيانا أنهم كانوا يعبدون النار وأن نارهم ما انطفأت ألف سنة

ترجمہ: دجال  بھی مشرق کی جانب سے رستا باز نامی دیہات سے آئے گا جس کا ذکر امام طبریؒ نے کیا ہے۔ اور اکثر مشرق والے کفر اور نافرمانی کو اختیار کرنے میں سخت ہیں کہ وہ آگ کی عبادت کرتے تھے اور ہزار سال ان کی آگ نہیں بھجی  تھی۔

اور علامہ عینیؒ عمدة القاری (24/ 199) میں  لکھتے ہیں:

«وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يومئذ كانوا أهل كفر فأخبر أن الفتنة تكون من تلك الناحية وكذلك كانت وهي وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما وراءها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التي كانت ‌مفتاح ‌فساد ‌ذات ‌البين قتل عثمان، رضي الله تعالى عنه»

ترجمہ:آپﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا اس لیے کہ اس وقت مشرق والے  کافر تھے تو آپﷺ نے خبر دی کہ بیشک فتنے اسی جانب سے ہوں گےا ور اسی طرح ہوا  اور وہ فتنے  جنگ جمل ، صفین پھر خوارج کی صورت میں عراق کی زمین نجد اور اس طرف کے علاقوں میں ظاہر ہوئےاور سب سے بڑا فتنہ جو آپس میں لڑائی کا سبب بنا وہ شہادتِ حضرت عثمانؓ ہے۔

اور مولانا یحییٰ کاندھلوی ؒ لامع الدراری(3/22) میں  لکھتے ہیں:

قوله : رأس الكفر نحو المشرق قال المهلب أى منه يظهر الكفر والفتن كالدجال ويأجود ومأجوج وغيرهما

ترجمہ: حدیث کے الفاظ کہ کفر کی جڑ مشرق کی جانب سے ہے۔مہلبؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں  یعنی مشرق کی جانب سے کفر اور فتنے ظاہر ہوں گے جیسے دجال کا فتنہ اور یاجوج  ماجوج کا فتنہ اور اس کے علاوہ دوسرے فتنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved