- تاریخ: 18 مئی 2024
استفتاء
جو حضرات یہاں پاکستان سے حج تمتع کی نیت سے مکہ جاتےہیں پھر وہاں سے ایام حج سے پہلے مدینہ منورہ چلے جاتےہیں۔ اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے وہ کون سا احرام باندھ کر مکہ شریف حج کے لیے جائیں ؟ اس بارے میں ذہن بہت منتشر ہے کیونکہ اس بارے میں بہت سا اختلاف سننے میں آیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسے حضرات کے لیے اختیار ہے چاہیں تو صرف حج کا احرام باندھ لیں کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ان کا تمتع قائم ہے۔
یا صرف عمرہ کا احرام باندھیں، کیونکہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کے میقات کے باہر جانے سے انکا تمتع باطل ہو جاتا ہے۔ اب اگر عمرہ کریں گے تو نئے سرے سے تمتع ہو گا۔
( كو في ) أي آفاقي حل من عمرته فيها أي الأشهر و سكن بمكة أي داخل المواقيت أو بصرة غير بلده وحج من عامه متمتع لبقاء سفره، أما إذا أقام بمكة أو داخل المواقيت فلأنه ترفق بتسكين في سفر واحد في أشهر الحج وهو علامة التمتع، وأما إذا قام خارجها فذكر الطحاوي أن هذا قول الإمام و عندهما لا يكون متمتعاً لأن المتمتع من كانت عمرته ميقاتية و حجه مكية وله أن حكم السفر الأول قائم ما لم يعد إلى وطنه و أثر الخلاف يظهر في لزوم الدم.( 542/ 2 )
اور ان کے لیے اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ یہ قران کا احرام باندھیں، کیونکہ اگر چہ یہ لوگ اہل مکہ کے حکم میں ہیں لیکن خود اہل مکہ حج کے مہینوں میں بھی اگر کسی اور کام سے میقات سے باہر جائیں اور واپسی میں تمتع یا قران کریں تو کر سکتےہیں۔ اور حاجی جو مدینہ منورہ جاتےہیں تو وہ نبی ﷺ کے روضہ کی حاضری اور مسجد نبوی میں نمازیں پڑھنے کی نیت سے جاتےہیں محض قران کا احرام باندھنے نہیں جاتے۔
ما ذكره شيخنا من الثلاثة الأقوال و ما ذكره كثير من أهل المذهب من أن المكي و من في حكمه منهي عن التمتع كما أنه منهي عن القران ليس على إطلاقه بل هو مقيد بما إذا كان في مكة أو ما هو في حكمها سواء قرن أو تمتع منها أو خرج إلى الميقات لأجل القران أو التمتع و أما إذا خرج المكي و من في معناه إلى الآفاق لحاجة و لو في الأشهر فإنه يصير حكمه حكمه اهل الآفاق في الإحرام لأنه صار ملحقاً بهم فلا تكره العمرة كما لا يكره القران. ( ارشاد الساری، 183 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved