• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حمل کی حالت میں طلاق پڑ جاتی ہے

استفتاء

اتوار والے دن میری لڑائی ہوئی ہے میں نے کہا کہ پھوپھو کے گھر نہیں جانا، اس بات پر ہم  میاں بیوی میں لڑائی ہوئی۔ صبح پیر والے دن میری ساس میرے گھر آئی۔ میری ساس نے مجھ سے کہا کہ تم نے میری بیٹی کو کیوں مارا۔ میں نے اپنی ساس کو کہا کہ پھوپھو کے گھر نہیں جانا، وہ اس لیے کہ میری بیوی کہہ رہی تھی کہ میں نے اپنی بہن کے گھر جانا ہے۔ اس طرح تو ہم دونوں  بہنیں نہیں مل سکتی، اس وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو مارا۔ میری ساس نے اپنی بیٹی کا بازو پکڑ کر میری پھوپھو کے گھر لے جانے لگی تو میں نے اپنی ساس کو کہا کہ آپ اسے وہاں نہ لے کر جائیں کیونکہ اسی بات پر ہم دونوں میں پہلے لڑائی ہوئی ہے، لیکن میرے منع کرنے کے باوجود میری ساس اپنی بیٹی کو وہاں لے کر چلی گئیں۔ پھر میں اپنے پھوپھو کے گھر گیا تو میں نے وہاں غصے میں آکر یہ بات کہی کہ آپ سے میرے منع کرنے کے باوجود لے کر آئی ہیں تو” میں نے اسے اپنے ساتھ نہیں رکھنا” میں نے غصے میں آکر دو مرتبہ لکھ کر بھیج دیا کہ” میں نے اب اسے نہیں رکھنا”۔ میری بیوی نے وہاں شور ڈال دیا کہ میں نے پھوپھو جی یہاں رہنا میں نے اپنے شوہر کے گھر جانا ہے، لیکن میری پھوپھو نے کہا کہ تم یہاں ہی رہو، تم اپنے گھر نہیں جانا۔ پھر میری بیوی زبردستی دوسرے دن اپنے بھائی کے ساتھ آئی تھی اور اسی دن صلح ہوگئی۔

تنقیح: میری بیوی اس وقت حالت حمل میں تھی اور میں سمجھتاتھاکہ حمل میں طلاق نہیں ہوتی اس لیے یہ الفاظ میں نے صرف ڈرانے کے لیے کہے تھے تاکہ دوبارہ ایسے نا جائے طلاق کی بالکل بھی نیت نہ تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ سمجھ کر کہنا کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی  اس پر دلیل ہے کہ طلاق ہی کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے، لہذا مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن ہوئی جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اکٹھا رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کریں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved