• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہر ماہ طلاق بھیجنا چاہ رہا تھا لیکن تینوں طلاق ناموں پر بغیر پڑھے اور بغیر سنے دستخط کر دیے

استفتاء

میں ***ولد*** لکھتا ہوں۔ میری شادی کو چار ماہ ہوئے ہیں، لہذا گھر میں گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے آپس میں اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے، میں اپنا گھر بسانا چاہتا تھا، لیکن معاملات خراب ہوتے گئے، میں اشٹام فروش کے پاس گیا، لہذا میں جیسا چاہتا تھا اشٹام فروش نے لکھنے میں اور میں نے پڑھنے میں غلطی  کی۔ لہذا میں ایک ایک کر کے طلاق دینا چاہتا تھا تاکہ صلح کی گنجائش رہے، میں نے ایک نوٹس بھیج دیا ہے، لہذا ہم دونوں گھروں کی آپس میں صلح ہو رہی ہے، میں اپنی زوجہ کو رکھنا چاہتا ہوں، اور اپنا گھر دوبارہ بسانا چاہتا ہوں، میں نے اسے منہ سے ایک طلاق بھی نہیں دی، لہذا میری زوجہ بھی میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

وضاحت: میں ایک طلاق دینا چاہتا تھا لیکن میں نے سائن تینوں پر کیے کہ ایک ایک کر کے بھیج دوں گا ابھی ایک طلاق نامہ بھیجا  ہے باقی دو طلاق نامے ابھی تک نہیں بھیجے۔ سائن کرنے سے پہلے اشٹام نہ پڑھے تھے نہ سنے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے تینوں طلاق ناموں پر بغیر پڑھے دستخط کیے ہیں جبکہ شوہر فی الحال صرف ایک طلاق دینا چاہتا تھا اس لیے صرف پہلے طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی، باقی دو طلاق ناموں پر دستخط کرنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ طلاقِ رجعی  کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت گذرنے سے پہلے پہلے رجوع کرنا چاہتے تو رجوع کر سکتا ہے اور اگر دوران عدت رجوع نہ کیا تو نکاح ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے آئندہ اکٹھے رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا جس میں کم از کم دو گواہوں کا ہونا ضروری ہو گا اور مہر بھی دوبارہ مقرر کرنا ہو گا۔

امداد الفتاویٰ (2/386) میں ہے:

’’سوال: ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھ دو، اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھ دیا، آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کر دیے۔ تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ معتبر نہ ہو، اسی طرح بعض اطراف بنگالہ میں دستور ہے کہ شوہر سے لکھوا  لیتے ہیں: ’’اگر برس دن نان و نفقہ سے خبر نہ لی تو طلاق ہے۔‘‘ یہ تحریر اگر قبل نکاح ہو معتبر نہیں اور بعد نکاح معتبر ہے۔ لیکن اگر تحریر پہلے سے مرتب ہے اور بعد نکاح کے اس پر دستخط کر دیے گئے اور حوالہ زوجہ کر دی گئی تو کیا حکم ہے؟

الجواب: اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کیے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں۔ قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے اور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے پس بمنزلہ اس کی کتاب کے ہے بنگالہ کے دستور میں جب بعد نکاح کے دستخط ہوتے ہیں معتبر ہے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر پہلے دستخط کر دے لیکن حوالہ کرے بعد میں، وہ بھی معتبر ہے کیونکہ یہ سب عرف میں بمنزلہ انشاء تکلم کے سمجھے جاتے ہیں جو کہ مدار ہے اعتبار کتابت کا ‘‘ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

 

[1] . مذکورہ صورت میں اگرچہ سائل نے طلاق کے تینوں نوٹس ایک ہی وقت میں تیار کرائے ہیں اور ان پر دستخط بھی کر دیے ہیں جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ تینوں طلاقیں ایک ایک کر کے اپنے اپنے وقت پر خود بخود واقع ہوتی چلی جائیں  گی اور سائل کے لیے صلح کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ لیکن یہ بات سائل کی غرض کے بھی خلاف ہے اور عرفاً بھی اس طرح کی صورت حال میں یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اب تینوں طلاقیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں بلکہ عرف میں اس طرح کی صورت حال میں معنیً نوٹس بھیجنے پر طلاق کو معلق سمجھا جاتا ہے۔ اور عرف کی وجہ سے معنیً تعلیق کا ذکر خود فقہائے کرام نے کیا ہے۔

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

تنبيه: عبارة المحقق ابن الهمام في الفتح هكذا: وقد تعورف في عرفنا في الحلف: الطلاق يلزمني لا أفعل كذا: يريد إن فعلته لزم الطلاق ووقع، فيجب أن يجري عليهم، لانه صار بمنزلة قوله: إن فعلت فأنت طالق، وكذا تعارف أهل الارياف الحلف بقوله علي الطلاق لا أفعل اه.

وهذا صريح في أنه تعليق في المعنى على فعل المحلوف عليه بغلبة العرف وإن لم يكن فيه أداة تعليق صريحاً.

لہذا سائل کی غرض اور عرف کے پیش نظر طلاق کے یہ تینوں نوٹس معنیً تعلیق علی الارسال پر محمول ہوں گے۔ چونکہ سائل نے طلاق کا صرف ایک نوٹس بھیجا ہے باقی دو نوٹس ابھی تک نہیں بھیجے اس لیے مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق ہوگئی ہے  جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں جس میں کم از کم دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور مہر بھی دوبارہ سے مقرر ہو گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

تبصرہ:

طلاق ثانی و ثالث تاریخ کے ساتھ تو منسلک ہے، ترسیل پر معلق نہیں ہے، اس لیے متعلق مرقومہ تاریخوں میں طلاق واقع ہو جانی چاہیے۔ ترسیل کا ارادہ سائل کے ذہن میں تھا اس پر کوئی لفظی قرینہ بھی نہیں ہے جو اسے تعلیق کی طرف پھیر دے۔

لہذا ان کو معلق علی الارسال سمجھنا درست نہیں۔ یہ ایسے ہی ہو گا جیسا طلاق عن وثاق کی نیت۔ اس لیے کم از کم قضاءً تو وقوع میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

آج کل عام طور سے جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تحریری طلاق دینا چاہتا ہے تو وثیقہ نویس کو طلاق نامہ تیار کرنے کو کہتا ہے، وثیقہ نویس شوہر کی جانب سے دی گئی معلومات کے مطابق طلاق نامہ تیار کرتا ہے اور شوہر اس پر دستخط کر دیتا ہے، پھر شوہر بعض اوقات یہ طلاق نامہ اپنی بیوی کو بھیج دیتا ہے اور بعض اوقات نہیں بھیجتا۔ نہ بھیجنے کی صورت عموماً وہ اس وقت اختیار کرتا ہے جبکہ اس کا طلاق دینے کا ارادہ ختم ہو چکا ہو۔ ایسی صورت حال میں طلاق کب واقع ہو گی؟

اس میں مندرجہ ذیل اقوال  ہیں:

1۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ جب شوہر نے وثیقہ نویس کو طلاق نامہ تیار کرنے کو کہا تو اس کے کہتے ہی طلاق ہو گئی خواہ وثیقہ نویس طلاق لکھے یا نہ لکھے۔ یہ حضرات اس صورت کو اقرارِ طلاق پر محمول کرتے ہیں اور شامیہ کے مندرجہ ذیل جزئیے سے استدلال کرتے ہیں۔

و لو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق و إن لم يكتب. (4/443)

مزید تفصیل خیر الفتاویٰ 5/172 تا 179 میں ہے۔

2۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ شوہر کے کہتے ہی تو طلاق نہ ہو گی البتہ وثیقہ نویس کے لکھتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ ابھی تک شوہر نے دستخط بھی نہ کیے ہوں، یہ حضرات اس صورت کو توکیل طلاق بالکتابۃ پر محمول کرتے ہیں۔ چنانچہ احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’ایک تیسری صورت یہ ہے کہ زوج نے طلاقِ مستبین مرسوم منجز کی کتابت کا امر کیا ہو، شامیہ میں اس کا حکم مذکور نہیں، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت میں کتابتِ طلاق کے فوراً بعد طلاق واقع ہو جائے گی،  لأن فعل الوكيل كفعل المؤكل و لو كتب الزوج بنفسه يقع الطلاق على الفور فكذا حكم كتابة وكيله.‘‘ (5/184)

ہمارے زمانے میں عرف کے لحاظ سے یہ دونوں قول درست نہیں کیونکہ ہمارے عرف میں مذکورہ صورت میں شوہر کے وثیقہ نویس کو طلاق نامہ تیار کرنے کو کہنے کا مطلب نہ تو اقرار بالطلاق لیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ مطلب ہوتا ہے کہ شوہر نے یہ کہہ کر وثیقہ نویس کو اس بات کا وکیل بنا دیا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو تحریری طلاق دے۔ جبکہ تحریری طلاق کو مؤثر بنانے میں عرف کا کردار بنیادی ہے

3۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ نہ تو شوہر کے کہتے ہی طلاق ہو گی اور نہ ہی وثیقہ نویس کے لکھتے ہی طلاق ہو گی، بلکہ وثیقہ نویس کے لکھنے کے بعد جب تک شوہر اس طلاق نامے پر دستخط نہیں کرے گا اس وقت تک طلاق نہ ہو گی۔

لیکن کیا دستخط کرتے ہی طلاق ہو جائے گی یا طلاق نامہ بیوی کو بھیجنے پر یا طلاق نامہ بیوی تک پہنچنے پر طلاق ہو گی؟ اس بارے میں فتاویٰ عثمانی کے ایک فتوے سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کے  دستخط ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی۔  چنانچہ فتاویٰ عثمانی میں ہے:

’’إن كان كان السيد المرحوم وفيع الرحمن كتب هذه الوثيقة بنفسه أو استكتبها من غيره و وقّع عليها فإن نجمة بنت منظور وقع عليها الطلاق منه و خرجت من نكاحها و جاز لها أن تتزوج غيره بعد انقضاء العدة.‘‘ (2/379)

فتاویٰ عثمانی کے اس فتوے کی توجیہ بظاہر یہ ہے کہ اگرچہ وثیقہ نویس نے طلاق نامہ شوہر کے کہنے سے لکھا ہے لیکن عرف میں جب تک شوہر اس پر دستخط نہ کرے اس کتابت کی نسبت شوہر کی طرف نہیں کی جاتی۔ اور دستخط سے پہلے تک یہ تحریر عرفاً نامکمل سمجھی جاتی ہے۔

4۔ بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عام حالات میں تو شوہر کے دستخط کرتے ہی طلاق ہو جائے گی، البتہ جہاں اس بات کے قرائن ہوں کہ شوہر کا مقصود طلاق منجز دینا نہ تھا بلکہ  ارسال پر اسے معلق کرنا تھا تو ایسی  صورت میں طلاق اس وقت ہو گی جب شوہر اس طلاق نامہ پر دستخط کر کے خود اپنی بیوی کو بھیج دے یا کسی دوسرے آدمی کو کہہ دے کہ یہ طلاق نامہ میری بیوی کو بھیج دو یا دوسرے کو یوں کہے کہ اس کی ایک کاپی تیار کر کے بیوی کو بھیج دو یعنی گویا جب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور اگر مقصود وصول پر معلق کرنا تھا تو طلاق اس وقت واقع ہو گی جب یہ طلاق نامہ بیوی تک پہنچ جائے۔ اس خیال کی بنیاد فتاویٰ شامی میں ذکر کردہ یہ عبارت ہے:

ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه، أو قال للرجل ابعث به إليها. (4/443)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دوسرے سے طلاق لکھوانے کی صورت میں طلاق اس وقت تک مؤثر نہ ہو گی جب تک کہ وہ (1) شوہر کو پڑھ کر نہ سنا دی گئی ہو یا خود شوہر نے نہ پڑھ لی ہو۔ (2) شوہر نے اس پر دستخط نہ کر دیے ہوں (3) عنوان نہ ڈالا گیا ہو (4) اور عورت کو بھیج نہ دیا گیا ہو (5) عورت تک طلاق نامہ پہنچ نہ گیا ہو۔ (6) شوہر نے اپنا طلاق نامہ ہونے کا اقرار نہ کر لیا ہو۔

ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں طلاق منجر میں ضروری نہیں۔ لہذا فتاویٰ شامی کی یہ عبارت طلاق بالکتابۃ معلق علی الوصول پر محمول ہے۔ جس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’ ولو استكتب من غيره كتاباً إلخ میں طلاق مستبین مرسوم معلق بوصول الكتاب مراد  ہے کما هو ظاهر من قوله: عنونه و بعث به إليها فأتاها،  طلاق منجز میں وقوعِ طلاق کے لیے یہ قیود نہیں ہوتیں، چونکہ یہ طلاق بلوغِ کتاب زوج پر معلق ہے اس لیے جب تک اس کتاب کا کتابِ زوج ہونا ثابت نہ ہو گا طلاق نہ ہو گی، اور کسی کتاب کی نسبت کسی کاتب کی طرف جب ہوتی ہے کہ وہ خود لکھے یا بطور املاء لکھائے، اس لیے اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہیں تو طلاق نہ ہو گی، لفقدان الشرط إلا أن يقر أنه كتابه فيؤخذ بإقراره.‘‘ (5/184)

2۔ خود علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس عبارت کو ’’طلاق بالکتابۃ معلق علی وصول الکتاب‘‘ کی تشریح کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

(طلقت بوصول الكتاب) أي إليها…. ولو وصل إلى أبيها فمزقه ولم يدفعه إليها، فإن كان متصرفاً في جميع أمورها فوصل إليه في بلدها وقع، وإن لم يكن كذلك فلا ما لم يصل إليها …. كتب في قرطاس: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان، طلقت ثنتين قضاء إن إقر أنهما كتاباه أو برهنت…. ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها إلخ.

تنبیہ:اگر کوئی یہ اشکال کرے کہ شامی کی مذکورہ عبارت کو ’’طلاق بالکتابۃ معلق علی وصول الکتاب‘‘ پر محمول بھی کر لیں تو پھر بھی اس عبارت سے آپ کے خیال کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ہاں طلاق نامہ لکھوانے کا جو معمول ہے اس میں عموماً شوہر وثیقہ نویس کو صرف طلاق نامہ کی کتابت کا کہتا ہے۔ تعلیق کا نہ تو شوہر کہتا ہے اور نہ ہی طلاق نامہ میں تعلیق کو ذکر کیا جاتا ہے۔

اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ طلاق نامہ میں تعلیق علی وصول الکتاب کا تذکرہ نہیں ہوتا اور نہ ہی شوہر اس کا ذکر صراحتاً کرتا ہے، لیکن عرف میں  بعض اوقات جبکہ قرائن بھی ہوں اس طلاق نامے کو معلق علی الارسال یا معلق علی وصول الکتاب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اور غیر معلق طلاق کو عرف کی وجہ سے معلق پر محمول کرنے کا تذکرہ خود فقہاء کرام نے کیا ہے۔

چنانچہ فتاویٰ شامیں ہے:

تنبيه: عبارة المحقق ابن الهمام في الفتح هكذا: وقد تعورف في عرفنا في الحلف: الطلاق يلزمني لا أفعل كذا: يريد إن فعلته لزم الطلاق ووقع، فيجب أن يجري عليهم، لانه صار بمنزلة قوله: إن فعلت فأنت طالق، وكذا تعارف أهل الارياف الحلف بقوله علي الطلاق لا أفعل اه.

وهذا صريح في أنه تعليق في المعنى على فعل المحلوف عليه بغلبة العرف وإن لم يكن فيه أداة تعليق صريحاً..………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved