• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حیاتِ نبی سے متعلق

استفتاء

۱۔ کیا حضور ﷺ اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں؟

۲۔ کیا عالم برزخ میں آنحضرت ﷺ بجسدہ العنصری حیات دنیوی کی طرح زندہ ہیں یا روح کا جسم سے کوئی تعلق نہیں گو جسم سلامت مانا جائے، حیات صرف روحانی ہے؟

۳۔ کیا عالم برزخ میں آنحضرت ﷺ کو بجسدہ العنصری زندہ اعتقاد کرنا اکابر دیوبند کا متفق علیہ مسئلہ ہے یا مختلف فیہ؟

۴۔ کیا جو شخص اکابر دیوبند کے برخلاف حیات النبی کا قائل نہ ہو اس کی اقتداء کرنا یعنی اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

رسول اللہ ﷺ کی روح مبارکہ اعلیٰ علیین میں ہے جبکہ آپ ﷺ کا جسم مبارک قبر اطہر میں ہے۔ روح مبارکہ کا اعلٰی علیین میں رہتے ہوئے جسم اطہر کے ساتھ قوی تعلق ہے جس کے مظاہر نصوص کی رو سے یہ ہیں:

۱۔ آپ ﷺ کا جسم مبارک محفوظ ہے۔

۲۔ جو کوئی شخص آپ ﷺ کی قبر مبارک پر جاکر صلوٰة و سلام پڑھے تو آپ ﷺ اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں اور خود اس کا جواب دیتے ہیں۔

۳۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنی قبر مبارک میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی اپنی قبر مبارک میں نماز پڑھتے ہیں کیونکہ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

اگر ہم مادی و حسی قبر مبارک کو کھول کر دیکھیں تو ہمیں آپ فقط لیٹے ہوئے نظر آئیں گے لیکن اگر اس کے ساتھ ہی عالم برزخ ہم پر کھول دیا جائے تو ان مظاہر کا مشاہدہ کرسکیں گے۔

یہ مظاہر چونکہ غیب کی باتیں ہیں اس لیے ہم صرف ان کا اثبات کریں گے جو نص سے ثابت ہوں۔

اسی مضمون کو قبر مبارک میں حیات النبی کے عقیدے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۴۔ فتاوی دار العلوم دیوبند میں ایسے شخص کو امام بنانے کو مکروہ لکھا ہے۔

۵۔ حالت بیداری میں نبی ﷺ نے مسجد اقصی میں انبیاء علیہم السلام کو دیکھا تھا۔ اس واقعہ میں یہ نہیں ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے اصل اجسام اپنی قبروں سے نکل آئے تھے بلکہ وہ ان کے اجسام مثالیہ تھے جن کے ساتھ ان کی ارواح مبارکہ کا قوی تعلق تھا۔ حالت بیداری میں ان کو کسی کو نبی ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا ہے تو یہ ممکن کہ اس کو آپ ﷺ کےجسم مثالی کا دیدار نصیب ہوا ہو۔ یہ امکان کے درجے میں لکھا ہے وقوع کے درجے میں مجھے علم نہیں ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved