- فتوی نمبر: 2-162
- تاریخ: 29 نومبر 2008
استفتاء
1۔ میرے تین بچے، جن میں 2 لڑکے اور ایک لڑکی ہے ، جن کی عمریں ڈھائی سال، چھ سال، اور آٹھ سال ہیں۔ بیٹی کی عمر چھ سال ہے، طلاق کے بعد کس کے پاس رہیں گے باپ کے پاس یا ماں کے پاس اور کتنی عمر تک؟
۲۔ بچوں کے اخراجات کیاہیں اور کس کے ذمہ ہیں؟
۳۔مطلقہ عورت کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟ جبکہ مطلقہ کی عدت گزر چکی ہے۔
۴۔اگر عورت عدت کے بعد نکاح کرلے ۔ تو بچے کس کے پاس رہیں گے؟
۵۔بچوں کے نکاح کن سےکرناہے یہ کون طے کرے گا۔ اس میں عورت کوکوئی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بات منوائے۔
۶۔ماں ،باپ خود طے کرسکتےہیں کہ بچوں کو کس طرح ملیں گے اور کتنی دیر بعد؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آٹھ سال کا بچہ باپ کے پاس رہے گا۔ باقی ایک بچہ اور بچی ماں کے پاس رہیں گے، بچہ سات سال کی عمر تک اور بچی نو سال کی عمر تک۔
(والحاضنة ) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام ….حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب…(والأم) والجدة لأم…(أحق بها) بالصغيرة(حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدربتسع وبه يفتى( وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد ، قال الشامي تحت قوله:(كذلك) أي في كونها أحق بها حتى تشتهى ، قوله (وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية.(شامی،ص:275،ج:5)
والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد إذا بلغت حد الشهوت فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين.(عالمگیری،ص:542،ج1)
2۔کھانا، گرمی سردی سے بچاؤ کے کپڑے ، جوتے ،تعلیم ، علاج اور دیگر تمام ضروریات باپ کے ذمہ ہیں۔
وتجب النفقة بأنواعها على الحر ( لطفله ) … الفقير … قوله ( بأنواعها ) من الطعام والكسوة والسكنى ، ولم أر من ذكرهنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة نعم صرحوا بأن الأب إذ كان مريضاً أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن.(شامی،ص:325،ج:5)
3۔عدت گزرنے کے بعد بیوی کا خرچہ شوہر کے ذمہ نہیں، ہاں عورت بچے کے پرورش کے بدلہ میں اجرت طلب کرسکتی ہے۔ البتہ باپ فقیر ہو اور محارم میں سے کوئی خاتون مفت پرورش پر تیار ہوتو ماں اجرت طلب نہیں کرسکتی اگر مفت پرورش پر تیار ہو تو ٹھیک ورنہ بچہ اس محرم خاتون کو دے دیا جائے گا۔شرط یہ ہے کہ اس محرم خاتون کا نکاح بچہ کے کسی غیر محرم سے نہ ہواہو۔
ونفقة الغیر تجب على الغير بأسباب ثلاث(زوجية،وقرابة، و ملك. (الدر المختار5/ 283 )
و ذكر في السراجية أن الأم تستحق أجرة على الحضانة إذا لم تكن منكوحة ولا معتدة لأبيه و تلك الأجرة غير أجرة الرضاع كذا في البحر و إذا كا ن الأب معسرا و أبت الأم أن تربي إلا بأجرة و قالت العمة أنا أربي بغير أجرة فإن العمة أولى هو الصحيح كذا في فتح القدير. (عالمگیری 1/ 543 )
4۔عورت اگر بچے کے محرموں میں سے کسی کیساتھ نکاح کرے تو ایسی صورت میں بچہ ماں ہی کے پاس رہے گا۔ ہاں اگر عورت کسی اجنبی شخص سے نکاح کرے تو پھر بچہ نانی کے پاس رہے گا۔اگر نانی نہ ہوتو دادی کے پاس۔
تثبت للأم (ولو)….بعد الفرقة إلا…أو متزوجة بغير محرم الصغير … ثم بعد الأم …(أم الأم) وإن علت…(ثم أم الأب وإن علت ) . (شامی،ص:269 ،ج:5)
5۔لڑکا لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد ماں باپ میں سے کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کریں۔ لیکن لڑکے، لڑکی کو چاہیے کہ وہ دونوں اپنے نکاح کے معاملے کو اگرچہ کفو میں ہو اپنے والدین کے سپرد کریں اور دونوں کی مشاورت سے کوئی رشتہ طے کیاجائے۔
الولاية تنفيذ القول على الغير شاء أو أبى وهي نوعان ولاية ندب على المكلفة ولو بكرا وفي الشامية قوله(ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمر إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة. ( شامی4 / 147)
6۔بچہ جب والدین میں سے کسی ایک کے پاس ہو تو دوسرے کو روزانہ ملنے کا حق ہے۔
له إخرجه إلى مكان يمكنها إن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها. (در مختار 5/ 281 )
© Copyright 2024, All Rights Reserved