- فتوی نمبر: 20-124
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے وقت ایسی شرط رکھی تھی کہ جب تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسری شادی نہیں کریں گے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ایسی کوئی شرط نہیں رکھی البتہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس نکاح سے منع کیا۔
ابو داؤد(1/229)میں ہے:
حدثنا سعيد بن محمد الجرمي حدثنا يعقوب بن إبراهيم حدثنا أبي أن الوليد بن كثير حدثه عن محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي حدثه أن ابن شهاب حدثه أن علي بن حسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي رحمة الله عليه لقيه المسور بن مخرمة فقال له هل لك إلي من حاجة تأمرني بها فقلت له لا فقال له فهل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليهم أبدا حتى تبلغ نفسي إن علي بن أبي طالب خطب ابنة أبي جهل على فاطمة رضی الله عنها فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم فقال إن فاطمة مني وأنا أتخوف أن تفتن في دينها ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه قال حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست أحرم حلالا ولا أحل حراما ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله أبدا.
ترجمہ: امام زین العابدین (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بعدجب وہ لوگ یزید کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت مسور بن مخرمہ ؓ ان سے ملے اور فرمایا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو تو بتائیے؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کیا آپ مجھے نبی کریم ﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ پر غالب آجائیں گے واللہ اگر آپ وہ مجھے دے دیں تو میری جان سے گذر کر ہی کوئی آدمی اس تک پہنچ سکے گا ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے (حضرت فاطمہ ؓ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجاپس میں نےرسول اللہ ﷺ کواس بارے میں خطبہ دیتے ہوئے سنااور میں اس وقت بالغ تھا پس آپ ﷺ نے فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع ؓ کا ذکر کیا اور ان کی تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال تو نہیں کرتا البتہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی ۔
بذل المجہود(10/59) میں ہے:
قوله(مكانًا واحدًا أبدًا).
قال الحافظ: وقال ابن التين: أصح ما تحمل عليه هذه القصة أن النبي – صلى الله عليه وسلم – حرَّم على علي – رضي الله عنه – أن يجمع بين ابنته وابنة أبي جهل، لأنه علل بأن ذلك يؤذيه، وأذيته حرام بالاتفاق، ومعنى قوله: "لا أحرِّم حلالًا”، أي: هي له حلال لو لم تكن عنده فاطمة، وأما الجمع بينهما الذي يستلزم تأذي النبي – صلى الله عليه وسلم – لتأذي فاطمة به فلا، وزعم غيره أن السياق يشعر بأن ذلك مباح لعلي، لكنه منعه النبي – صلى الله عليه وسلم – رعاية لخاطر فاطمة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved