- فتوی نمبر: 162-27
- تاریخ: 15 اگست 2022
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
میرا نام فیصل ہےاور اسلام کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:
1۔ایک دفعہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان نہیں دی تو صبح نہیں ہوئی۔کیا یہ بات درست ہے؟
2۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اذان دینا چھوڑدی تھی۔اس کی اصل وجہ کیا تھی؟
3۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھوڑے توتلے تھے ،جس پہ لوگوں نے اعتراض کیا تھاکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان نہیں دینی چاہیے۔اس سوال کا اصل جواب کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بات سے متعلق حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دو واقعات مشہور ہیں ۔
پہلا واقعہ:’’لوگوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی لکنت کی شکایت کی کہ وہ ’’أشهد‘‘میں شین کی جگہ سین پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا اور کسی دوسرے شخص نے صبح کی اذان دے دی،اس کے بعد بہت دیر ہوگئی ،صبح ہی نہیں ہورہی تھی ،لوگوں نے آپ ﷺ سے یہ بات عرض کردی، آپ ﷺ پریشان ہوئے ، جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے کہ جب تک بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے صبح نہیں ہوگی ،چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو صبح ہوگئی ، آپ ﷺ نے فرمایا اگر بلال اذان نہ دیتے تو صبح ہی نہ ہوتی ‘‘ نیز اس واقعےمیں یہ بات بھی ذکر کی جاتی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بلال کا سین بھی اللہ کے ہاں شین ہے‘‘
یہ واقعہ کافی تلاش کے باوجود مذکورہ تفصیل کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں ملااور محققین نے لکھا ہے کہ شین کو سین سے بدلنے والی بات من گھڑت ہے،اس لیے یہ واقعہ درست نہیں۔
دوسرا واقعہ:’’ آپﷺ سحری تناول فرمارہے تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! صبح ہوگئی(یعنی سحری کا وقت ختم ہوگیا )،آپ ﷺ سحری تناول فرماتے رہے ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا:یا رسول اللہ!صبح ہوگئی،آپ ﷺ سحری تناول فرماتے رہے،تیسری مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ !اللہ کی قسم صبح ہوگئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کھانے سے رک گئےاور فرمایا:صبح تو نہیں ہوئی تھی مگر اللہ تعالی نے بلال کی قسم کی وجہ سے صبح کردی‘‘
مذکورہ واقعہ کتب حدیث میں مذکور ہے،تاہم اس میں بھی یہ بات نہیں کہ حضرت بلال ؓ کی قسم کی وجہ سے اللہ تعالی نے صبح کردی بلکہ یہ بات ہے کہ حضرت بلالؓ قسم نہ کھاتے تو ہمیں سورج طلوع ہونے تک سحری کھانے کی رخصت مل جاتی۔
[7844]عبد الرزاق، عن ابن عيينة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن حكيم بن جابر قال: جاء بلال إلى النبي – صلى الله عليه وسلم -، والنبي – صلى الله عليه وسلم – يتسحر، فقال: الصلاة يا رسول الله، فثبت كما هو يأكل، ثم أتاه، فقال: الصلاة، وهو حاله، ثم أتاه الثالثة، فقال: الصلاة يا رسول الله، قد والله أصبحت، فقال النبي – صلى الله عليه وسلم -: "يرحم الله بلالا، لولا بلال لرجونا أن يرخص لنا حتى تطلع الشمس”
ترجمہ:حکیم بن جابر رحمۃاللہ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئےاور آپ ﷺسحری تناول فرمارہے تھے ،حضرت بلال ؓ نے کہا :اے اللہ کے رسول ! نماز،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کھاتے رہے ،حضرت بلا ل ؓ دوبارہ آئے اور کہا کہ نماز، آپ ﷺ بدستور اپنی حالت پر رہے ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ پھر تیسری مرتبہ آئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! نماز،اللہ کی قسم صبح ہوگئی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا :اللہ بلال پر رحم فرمائے،اگر بلال نہ ہوتے تو ہمیں امید تھی کہ ہمیں طلوع شمس تک رخصت مل جاتی۔
2 ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺکی وفات کے بعد آپ کی جگہ کو خالی دیکھنا دشوار ہوگیا تھااس لیے جہاد کے لیے شام چلے گئے تھے۔
3۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان میں ’’لکنت ‘‘والی بات بے اصل ہے۔
المقاصد الحسنۃ(255)میں ہے:
حديث: سين بلال عند الله شين، قال ابن كثير: إنه ليس له أصل، ولا يصح، …. وقد ترجمه غير واحد بأنه كان ندي الصوت حسنه فصيحه، وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعبدالله بن زيد صاحب الرؤيا: ألق عليه، أي على بلال، الأذان، فإنه أندى صوتا منك، ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها، ولعابها أهل النفاق والضلال، المجتهدين في التنقص لأهل الإسلام، نسأل اللَّه التوفيق.
کشف الخفاء(1/260)میں ہے:
(ان بلالا كان يبدل الشين في الأذان سينا) قال في الدرر لم يرد في شئ من الكتب، وقال القاري ليس له أصل، وقال البرهان السفاقسي نقلا عن الإمام المزي أنه اشتهر على ألسنة العوام ولم يرد في شئ من الكتب.
مرقاة شرح مشكوة(10/622)میں ہے:
وعن قيس بن أبي حازم: أن بلالا قال لأبي بكر: إن كنت إنما اشتريتني لنفسك فأمسكني، وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني وعمل الله. رواه البخاري.
(وعن قيس بن أبي حازم) قال المؤلف: هو أحمسي بجلي، أدرك زمن الجاهلية، وأسلم وجاء إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – ليبايعه، فوجده توفي، يعد في تابعي الكوفة، روى عن العشرة إلا عبد الرحمن بن عوف، وعن جماعة كثيرة سواهم من الصحابة، وليس في التابعين من روى عن تسعة من العشرة إلا هو، وروى عنه جماعة كثيرة من الصحابة والتابعين، شهد النهروان مع علي بن أبي طالب، وطال عمره حتى جاوز المائة، ومات سنة ثمان وتسعين (أن بلالا قال لأبي بكر) ، أي: حين أراد التوجه إلى الشام بعد وفاة النبي – صلى الله عليه وسلم – لعدم صبره من رؤية المسجد النبوي بغير حضوره – صلى الله عليه وسلم – وعدم القدرة على الأذان فيه، ولا على تركه في زمن غيره، وسيجيء أنه صار سيد الأبدال ومحلهم غالبا هو الشام. (ومنعه أبو بكر – رضي الله عنه -) ، أي: عن الرواح بإلزام على المجاورة مع اختيار الأذان (إن كنت إنما اشتريتني لنفسك) ، أي: لرضاها ووفق مدعاها (فأمسكني) ، أي فاحكم علي بالقعود (وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني) ، أي: فاتركني (وعمل الله) . أي العمل الذي اخترته لله، أو الأمر الذي قدره الله وقضاه
© Copyright 2024, All Rights Reserved