• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضرت عیسیٰؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا مطلب

استفتاء

اگر قبروں میں مدفون لوگ زندہ ہیں تو سیدنا عیسیٰ ؑ بطور معجزہ کن کو زندہ کرتے تھے؟ زندوں کو زندہ کرتے تھے یا مردوں کو زندہ کرتے تھے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قبر کی زندگی قرآن کریم کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے ثابت ہےاور قبرکی زندگی برزخی زندگی ہےدنیوی زندگی کی طرح نہیں ہےقبر کی زندگی میں انسان کو نوع من الحیاۃ یعنی ایک قسم کی زندگی حاصل ہوتی ہےجس کو عموما دنیا والے محسوس نہیں کرپاتے اور یہ دنیوی زندگی سے کم درجے کی زندگی ہوتی ہےاور حضرت عیسی علیہ السلام کا قبر میں مدفون لوگوں کو بطور معجزہ ایک لمحہ کیلئے زندہ کرنا اس کے منافی نہیں کیونکہ آپ ؑاللہ تعالی کے حکم سےمدفون آدمی کو کامل طور پر زندہ فرمادیتے تھےجس کی حیات لوگوں کو محسوس بھی ہوتی تھی جیسے وہ پہلے زندہ ہوتاتھا۔

روح المعانی (1/419)میں ہے:

وعندي ‌أن ‌الحياة ‌في ‌البرزخ ثابتة لكل من يموت من شهيد وغيره، وأن الأرواح- وإن كانت جواهر قائمة بأنفسها- مغايرة لما يحس به من البدن لكن لا مانع من تعلقها ببدن برزخي مغاير لهذا البدن الكثيف.

کتاب الروح لابن القیم(ص:43)میں ہے:

وَأما استدلاله بقوله تَعَالَى {قَالُوا رَبنَا أمتنَا اثْنَتَيْنِ وأحييتنا اثْنَتَيْنِ} فَلَا يَنْفِي ثُبُوت هَذِه الْإِعَادَة الْعَارِضَة للروح فِي الْجَسَد كَمَا أَن قَتِيل بني إِسْرَائِيل الَّذِي أَحْيَاهُ الله بعد قَتله ثمَّ أَمَاتَهُ لم تكن تِلْكَ الْحَيَاة الْعَارِضَة لَهُ للمسئلة معتدا بهَا فَإِنَّهُ يحيى لَحْظَة بِحَيْثُ قَالَ فلَان قتلنى ثمَّ خر مَيتا على أَن قَوْله ثمَّ تُعَاد روحه فِي جسده لَا يدل على حَيَاة مُسْتَقِرَّة وَإِنَّمَا يدل على إِعَادَة لَهَا إِلَى الْبدن وَتعلق بِهِ وَالروح لم تزل مُتَعَلقَة ببدنها وَإِن بلَى وتمزق وسر ذَلِك أَن الرّوح لَهَا بِالْبدنِ خَمْسَة أَنْوَاع من التَّعَلُّق مُتَغَايِرَة الْأَحْكَام

أَحدهَا تعلقهَا بِهِ فِي بطن الْأُم جَنِينا

الثَّانِي تعلقهَا بِهِ بعد خُرُوجه إِلَى وَجه الأَرْض

الثَّالِث تعلقهَا بِهِ فِي حَال النّوم فلهَا بِهِ تعلق من وَجه ومفارقة من وَجه

الرَّابِع تعلقهَا بِهِ فِي البرزخ فَإِنَّهَا وَإِن فارقته وتجردت عَنهُ فَإِنَّهَا لم تُفَارِقهُ فراقا كليا بِحَيْثُ لَا يبْقى لَهَا الْتِفَات إِلَيْهِ الْبَتَّةَ وَقد ذكرنَا فِي أول الْجَواب من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يدل على ردهَا إِلَيْهِ وَقت سَلام الْمُسلم وَهَذَا الرَّد إِعَادَة خَاصَّة لَا يُوجب حَيَاة الْبدن قبل يَوْم الْقِيَامَة

الْخَامِس تعلقهَا بِهِ يَوْم بعث الأجساد وَهُوَ أكمل أَنْوَاع تعلقهَا بِالْبدنِ وَلَا نِسْبَة لما قبله من أَنْوَاع التَّعَلُّق إِلَيْهِ إِذْ تعلق لَا يقبل الْبدن مَعَه موتا وَلَا نوما وَلَا فَسَادًا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved