• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضرت فاطمہؓ کے حضرت ابوبکر ؓ سے میراث طلب کرنے کے متعلق واقعہ کی تحقیق

استفتاء

حدثنا ‌يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة «أن فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم، أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، مما أفاء الله عليه بالمدينة وفدك، وما بقي من خمس خيبر، فقال أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا نورث، ما تركنا صدقة، إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال. وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه، ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا، فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك، فهجرته فلم تكلمه حتى توفيت، وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر، فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا، ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها، وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة، فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس، فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته، ولم يكن يبايع تلك الأشهر، فأرسل إلى أبي بكر، أن ائتنا ولا يأتنا أحد معك، كراهية لمحضر عمر، فقال عمر: ‌لا ‌والله ‌لا ‌تدخل ‌عليهم ‌وحدك، ‌فقال أبو بكر: وما عسيتهم أن يفعلوا بي، والله لآتينهم، فدخل عليهم أبو بكر، فتشهد علي، فقال: إنا قد عرفنا فضلك وما أعطاك الله ولم ننفس عليك خيرا ساقه الله إليك، ولكنك استبددت علينا بالأمر، وكنا نرى لقرابتنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم نصيبا، حتى فاضت عينا أبي بكر، فلما تكلم أبو بكر قال: والذي نفسي بيده، لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي، وأما الذي شجر بيني وبينكم من هذه الأموال، فلم آل فيها عن الخير، ولم أترك أمرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنعه فيها إلا صنعته. فقال علي لأبي بكر: موعدك العشية للبيعة. فلما صلى أبو بكر الظهر رقي على المنبر، فتشهد، وذكر شأن علي وتخلفه عن البيعة، وعذره بالذي اعتذر إليه، ثم استغفر وتشهد علي، فعظم حق أبي بكر، وحدث: أنه لم يحمله على الذي صنع نفاسة على أبي بكر، ولا إنكارا للذي فضله الله به، ولكنا نرى لنا في هذا الأمر نصيبا، فاستبد علينا، فوجدنا في أنفسنا. فسر بذلك المسلمون وقالوا: أصبت، وكان المسلمون إلى علي قريبا، حين راجع الأمر المعروف.»

اس حدیث کی رو سے دو سوال ہیں:

(1) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ناراض رہنا میراث پر، کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دین کا علم نہیں تھا یا کم تھا کہ وفات تک حتی کہ دفن بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتائے بغیر کیا گیا اور ناراضگی بر قرار رہی؟

(2) حضرت علی کا یہ فرمانا: “معاملہ خلافت کو ہم اپنا حق سمجھتے تھے” کیا یہ نقطہ نظر یہ ثابت کرتا ہے کہ خلافت علی کا حق تھا؟

اہل سنت کے تاریخی ماخذات میں ذکر ہے:

1۔ تاریخ طبری (امام محمد بن جریر طبری)، روایت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “والله لئن لم تخرجوا للبيعة لأحرقن عليكم البيت” (خدا کی قسم اگر تم بیعت کے لیے باہر نہ نکلے تو میں تم پر گھر جلا دوں گا) ماخذ: تاریخ طبری،جلد 2، صفحہ 443،دارالمعارف،مصر

2۔ انساب الاشراف(بلاذری)، روایت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور کہا “بخدا یا تم بیعت کے لیے نکلو یا ہم تم پر گھر جلا دیں گے” ماخذ: انساب الاشراف،جلد 1،صفحہ 586

3۔ المصنف (ابن ابی شیبہ)، روایت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آیا کہ وہ لکڑیاں لے کر آئے تاکہ گھر کو آگ لگا دیں۔”جاء عمر إلى بيت فاطمة وفيه علي….. وقال والذي نفس عمر بيده لتخرجن إلى البيعة أو لأحرقن البيت” ماخذ: المصنف لابن ابی شیبہ،جلد 7،حدیث 36306

(3) سوال یہ ہے کیا یہ سب سچ ہے اور حقیقت پر مبنی ہے جبکہ یہ روایات اہل سنت کتب سے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کے مسئلہ سے نا واقف ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہ مسئلہ معمول سے ہٹ کر تھا اور کسی صحابی کا ایسے مسئلہ سے نا واقف ہونا عین ممکن ہے جيساكہ ازواج مطہرات نے بھی اس طرح کا مطالبہ کیا تھا ۔چنانچہ صحیح بخاری (2/996) میں ہے:

عن ‌عائشة رضي الله عنها: أن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‌أردن ‌أن ‌يبعثن عثمان إلى أبي بكر يسألنه ميراثهن، فقالت عائشة: أليس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نورث، ما تركنا صدقة.

اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ ہو  کہ یہ حدیث صرف درہم و دینار سے متعلق ہے زمین و جائیداد اس میں داخل نہیں جبکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے میں یہ حدیث ہر طرح کے مال و جائیداد کو شامل تھی۔

اور رہا حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے حدیث “ما ترکنا صدقة ” سنانے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کا ناراض ہونا   تو اولاً تو آپ کی ذکر کردہ روایت میں الفاظ “وجدت” کے ہیں جن کا معنی پشیمانی ہے یعنی وہ اپنے اس مطالبے پر پشیمان ہوئیں اور پھر ساری زندگی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ چنانچہ تاریخ المدینہ لابن شبہ (1/197) میں یہ الفاظ ہیں:

 “فلم تكلمه في ذلك المال حتى ماتت”

کیونکہ اگر ناراضگی کا معنی لیا جائے تو اتنی لمبی ناراضگی کی صورت میں اعتراض خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر پڑے گا۔اور ثانیاً اگر تسلیم کرلیا جائے کہ ناراض ہوئی تھیں  تو یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہ ناراضگی وفات تک برقرار نہ رہی بلکہ وفات سے قبل ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو راضی کر لیا تھا۔ چنانچہ السنن الکبری للبیہقی(6/301) میں ہے:

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ حدثنا أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ حدثنا محمد بن عبد الوهاب حدثنا عبدان بن عثمان العتكي بنيسابور حدثنا أبو ضمرة عن اسماعيل بن أبي خالد عن الشعبي قال لما مرضت فاطمة رضي الله عنها أتاها أبو بكر الصديق رضي الله عنه فاستاذن عليها فقال علي رضي الله عنه يا فاطمة هذا أبو بكر يستاذن عليك فقالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها يترضاها وقال والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتكم أهل البيت ثم ترضاها حتى رضيت. هذا مرسل حسن باسناد صحيح.

رہی یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر نہ دی تو اس کی وجہ یہ تھی آپ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  کو اس کی اطلاع مل چکی ہوگی۔ اور یہ بات کہیں مذکور نہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر نہ ہوئی ہو اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان کا جنازہ نہ پڑھا ہو بلکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ  جنازہ میں شریک ہوئے تھے بلکہ جنازہ ہی انہوں نے پڑھایا تھا۔ چنانچہ السنن الکبریٰ للبیہقی (4/29) میں ہے:

عن الشعبي: أن فاطمة، رضي الله عنها لما ماتت دفنها علي رضي الله عنه ليلا، وأخذ بضبعي أبي بكر الصديق رضي الله عنه ‌فقدمه ‌يعني في الصلاة عليها

(2)حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا “ولكنا نری لنا فی هذا الأمر نصیبا” (ہم اس امر میں اپنا کچھ حصہ سمجھتے تھے) یہ ثابت نہیں کرتا کہ خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا کیونکہ (هذا الامر) سے ان کی مراد خلافت نہیں ہے بلکہ امر ِ خلافت میں مشاورت ہے کہ خلیفہ مقرر کرنے والے معاملے میں ہم سے مشورہ نہیں لیا گیا جیسا کہ اسی روایت میں مذکور ہے: “ولکنک استبددت علينا الأمر” (آپ نے خلافت کا معاملہ خود ہی طے کرلیا)  جبکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ کا عذر یہ تھا کہ اگر وہ اس میں تاخیر کرتے تو  مسلمانوں میں انتشار و اختلاف کا خوف تھا لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ نے ہنگامی طور پر بیعت خلافت لی ورنہ خلافت کے متعلق اسی روایت میں حضرت علیؓ خود فرمارہے ہیں کہ “ إنا قد عرفنا فضلك وما أعطاك الله ولم ننفس عليك خيرا ساقه الله إليك” (ہم آپ کی فضیلت اور جو مقام اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہے اسے پہچانتے ہیں اور جو خیر یعنی خلافت اللہ نے آپ کو عطا کی ہے اس پر آپ سے حسد نہیں کرتے)

(3)  آپ نے جن کتب کا حوالہ دیا ہے ان میں مصنف ابن ابی شیبہ کی عبارت سب سے مفصل ہے جس میں پوری بات  آگئی ہے وہ روایت درج ذیل ہے۔

حدثنا محمد بن بشر، حدثنا عبید الله بن عمر ، حدثنا زيد ابن اسلم عن أبيه أسلم  أنه حین بویع لأبی بکر بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم كان على والزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيشاورونها ویرتجعون في أمر هم فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة فقال يا بنت رسول الله صلى الله علیه وسلم و الله ما من الخلق أحد أحب إلينا من أبيك وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك وایم الله ما ذاك بمانعى إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن أمر بهم أن يحرق عليهم البيت.

قال : فلما خرج عمر جاؤوها فقالت: تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وأيم الله ليمضين لما حلف عليه فانصرفوا راشدین فروا رأيكم ولا ترجعوا إلىّ فانصرفوا عنها فلم يرجعوا اليها حتى بایعوا لأبي بكر۔ (المصنف لابن ابی شیبة: 20/579)

اس  روایت کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو اس وقت کچھ لوگوں نے جن میں حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے ابھی تک بیعت نہیں کی تھی اور وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہو کر مشاورت کر رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے جا کر   ان لوگوں کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے کہا کہ اگر تم بیعت کے لیے اس گھر سے نہ نکلے تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔

اول تو  اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ اس میں انقطاع ہے۔واقعہ کے راوی (اسلم)  واقعہ کے وقت موجود نہ تھے۔ لیکن اگر یہ واقعہ درست بھی ہو تب بھی کوئی اشکال نہیں ہوتا کیونکہ  ان حضرات کا بیعت میں تاخیر کرنا انتشار کا باعث بن سکتا تھا اس لیے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بیعت پر آمادہ کرنے کے لیے اس قسم کی دھمکی دی۔ ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد سچ مچ اس گھر کو جلانا نہ تھا بلکہ انہیں دھمکا کر بیعت پر آمادہ کرنا تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا عذر گھروں میں نماز پڑھنے والے مردوں کے بارے میں اسی قسم کی ترہیب ثابت ہے۔ لہٰذا اس واقعے پر کوئی اشکال نہیں۔

فتح الباری (202/6) میں ہے:

واماسبب غضبها مع احتجاج ابى بكر بالحديث المذكور فلاعتقادها تاويل الحديث على خلاف ما تمسك به ابوبكر. وكأنها اعتقدت تخصيص العموم في قوله “لا نورث” ورأت أن منافع ما خلفه من ارض وعقار لا يمتنع أن تورث عنه وتمسك أبو بكر بالعموم واختلفا فى أمر يحتمل للتاويل

فتح الباری (494/7) میں ہے:

ولعله لم يعلم أبا بكر بموتها لأنه ظن أن ذلك لا يخفى عنه وليس في الخبر ما يدل على أن أبا بكر لم يعلم بموتها ولا صلى عليها.

فتح الباری (494/7) میں ہے :

ولعل عليا أشار إلى أن أبا بكر استبد عليه بأمور عظام كان مثله عليه أن يحضره فيها ويشاوره أو أنه أشار إلى أنه لم يستشره في عقد الخلافة له أولا، والعذر لأبى بكر أنه خشى من التاخير عن البيعة الاختلاف لما كان وقع من الانصار…. فلم ينتظروه.

رحماء بینہم(2/200) میں ہے:

…..بعض لوگ ایک واقعہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق  کی بیعت  کے موقع پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر گئے بقول بعض رواۃ کے آگ بھی ساتھ لے گئے ان کو ڈرایا دھمکایا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سخت کلامی ہوئی اور کہا کہ اگر تم لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کرو گے تو میں تمہارا گھر جلادوں گا تب حضرت علی وزبیر رضی اللہ عنہما وغیره خوف زدہ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور بیعت کرلی…….ثانیاً عرض ہے کہ احتراق بیت کا واقعہ بعض باسند کتابوں میں پایا جاتا ہے وہ اسانید عام طور پر مجروح ثابت ہوئی ہیں ان کے رواۃ کئی طرح کی جرح سے مطعون پائے گئے ہیں جیسے تاریخ طبری میں یہ واقعہ ہے لیکن اس سند میں کذاب و دروغ گو لوگ موجود ہیں۔ ابن حمید جو طبری کا مروی عنہ ہے اس کو احذق بالكذب (دروغ گوئی میں بڑا ماہر)کہا گیا ہے اور یہ شخص مقلب المتون و الاسانید یعنی متن و سند میں کئی قسم کی تبدیلیاں کر دینے والا بزرگ ہے۔ نیز یہ روایت مقطوع ہے اس واقعہ کا ناقل زیاد بن کلیب خود واقعہ میں موجود نہیں تھا کسی شخص نے اس کو یہ واقعہ بیان کیا۔ بیان کنندہ کون صاحب ہے کیسا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔

پھر جن روایات کے اسانید پر معمولی جرح پائی گئی  ہے ان میں یہ خامی ہے کہ وہ روایات بھی مقطوع ہیں۔ روایت کی سند کے آخری راوی اور واقعہ ہذا کے درمیان انقطاع زمانی پایا گیا ہے۔ بیان کنندۂ روایتِ ہذا واقعہ میں موجود نہیں کسی صاحب سے سن کر اس نے روایت چلا دی ہے۔ ابن ابی شیبہ اور ابن عبد البر و غیرہ کی روایات اسی نوعیت کی ہیں یعنی مقطوع پائی گئی ہیں۔ زید بن اسلم اور خود اسلم دونوں باپ بیٹا اس واقعہ کے وقت مدینہ طیبہ میں ہرگز موجود نہ تھے۔ نیز علماء نے زید بن اسلم کے متعلق تصریح کر دی ہے کہ یہ بزرگ مدلس ہے۔ اپنی روایات میں بعض اوقات تدلیس کر دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو (ا) مقدمہ کتاب  التمہید لابن عبد البر باب بیان التدلیس، ج 1، ص 36 طبع مراکش (۲) تہذیب التہذیب لابن حجر تذکره زید بن اسلم ، ج 3، ص 396۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved